Fikar O Shour Ki Qandil By Fakhar Zaman

Fikar O Shour Ki Qandil By Fakhar Zaman

Fikar O Shour Ki Qandil By Fakhar Zaman


فکروشعور کی قندیل۔۔۔۔

تحریر۔۔۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔۔۔


پیارے قارئین کرام!انسان پر رب کریم نے خصوصی کرم فرمایا۔اسے عقل وشعور کی دولت سے سرفراز فرمایا اور عظمتوں کا تاج اس کے سر پر سجایا ۔مسجود ملک کا رتبہ ملا گویا رب کریم کی بے شمار عطاؤں میں سے عقل وشعور سب سے بڑی عطا ہے۔اس کا شکر جتنا بھی ادا کیا جاۓ وہ کم ہے۔یہ سلسلے کتنے خوبصورت اور حسین و دلربا ہیں۔عنوان بہت اہم ہے ۔اہل قلم اپنی ذہنی وقلبی استطاعت کے مطابق اس کی اہمیت اجاگر کرنے میں کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔تاہم میری تمنا بھی ہے کہ کچھ عرض کروں۔انداز بیاں اگرچہ بہت شوخ نہیں ہے۔۔۔تمنا تو یہی کہ اس اہم عنوان پر کچھ اظہار تو کروں۔شعور وفکر کی بیداری علم سے ہوتی ہے۔علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔۔یہ نعمت عظیم انسان کے کردار کی تعمیر اور تربیت اوصاف میں نمایاں رعنائی پیدا کرتی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان حقیقت سے آشنا ہو کر مقام شوق کے دریچوں میں جھانک کر منزل مقصود تک رسائی پاتا ہے۔اس کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں۔بقول اقبال۔فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی۔۔معراج انسانیت سے آشنائی,جذب وشوق سے لگن کی صلاحیت بھی شعور بیداری سے پیدا ہوتی ہے۔کامل انسان کی سیرت اور تعمیر کردار میں علم کی اہمیت مسلمہ ہے۔تعلیم وتربیت سے منزل ملتی ہے۔شعور وفکر کی بیداری سے مقام شوق پیدا ہوتا ہے۔راز حیات کی تشریح ہوتی ہے۔بلند حوصلوں کو تقویت ملتی ہے۔زندہ ہر اک چیز ہے کوشش ناتمام سے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔جب شعور بیدار ہوتا ہے تو انسان ہر چیز سے بے نیاز ہو کر خوشنودی رب کی تلاش کرتا ہے۔سکینت پاتا ہے۔عزت واحترام کی ثروت حاصل کرتا ہے۔شعور وفکر انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔یہ کائنات جو خوش رنگ اور حسن وجمال کی مرقع ہے کو واضح کرتا ہے۔اس وقت شعور بیداری کی ضرورت سب سے زیادہ ہے کیونکہ عالم کفر پوری آب وتاب سے ملت اسلامیہ کے خلاف متحرک ہے۔دیار محبت اور اس کے تقاضے شعور بیداری سے آشکار ہوتے ہیں۔غلامی سے نجات,فلسفہ حیات,تخلیق کائنات,راز حیات,حقیقت زندگی اس طرح واضح ہوتی ہے کہ انسان اوج کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے اور مقام شوق کے مراحل طے پاتا ہے۔شعور بیداری سے ہی انسان کی زندگی مثل شمع روشنی بکھیرتی ہے۔اندھیرے ختم ہوتے اور اجالے روشنی پھیلاتے ہیں۔ذوق جستجو اور شوق آرزو عشق کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔متاع بے بہا ہے درد سوز آرزو مندی کی اہمیت سے آشنائی ملتی ہے۔نیک سیرت اور اخلاقیات سے انسان منزل مقصود تک رسائی پاتا ہے۔عاجزی,انکساری کی دولت ہاتھ آتی ہے۔یہ شعور وفکر کی اعجاز کہ انسان انس ومحبت کے جذبہ سے سرشار ہو کر مل جل کر رہتا ہے۔کسی درد مند کے کام آ کے راز سے پردے اٹھتے ہیں۔یہ بات بھی عیاں ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خیال نہ ہو اپنی حالت آپ بدلنے کا۔مقصد یہ کہ شعود بیداری سے انسان کے جذبات میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اس سے کچھ کرنے کا شوق پروان چڑھتا ہے۔روشنی کی چمک سے اندھیرے میں اجالا پیدا ہونے سے مقام عبدیت کے سمجھنے کی قابلیت ہوتی ہے۔تخلیقی و ادبی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں۔زمان مکاں اور بھی ہیں کی سوچ پیدا ہوتی ہے۔پاکیزہ صفات ,حسن اخلاق,اسلوب بیان,صبروقناعت,طلب وچاہت,مساوات وعدل,احترام آدمیت سب شعور کی بیداری سے ممکن ہے۔قرآن کی خوشبو اور سنت رسول ﷺ کے جذب و شوق سے سرشار رہنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔انسان کا دل تو ایک چمن ہے۔اس میں بہار آفرینی شعور وفکر سے پیدا ہوتی ہے۔محبتوں کے پھول,الفت کے سمن زار,چاہت کے گلاب شعور وفکر سے پیدا ہوتے ہیں۔



Post a Comment

Previous Post Next Post