Column Written By Amir Shahzad

Column Written By Amir Shahzad

Column Written By Amir Shahzad


عامر شہزاد

جھنگ صدر پنجاب پاکستان

صنف مضمون

 

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 بکھیرو جو درد دل صفحہ قرطاس پہ ساجد

کوئی تقریر ٹھہرے تو کوئی مضمون ہو جائے

 

یہ دنیا کمالات سے بھری ہوئی ہے۔ اس کائنات کے اندر کئی رنگ،نسل،مذہب اور زبان کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں۔جن میں طرح طرح کے کمالات پائے جاتے ہیں ۔

لیکن یہ دنیا ہمیشہ ایک شخص کی تلاش میں رہی ہے جس میں تمام کمالات ایک ساتھ پائے گئے ہوں ۔ کئی ایسے اصحابِ کمال دنیا میں آئے جن میں بہت سارے کمالات دیکھنے کو ملے مگر ساری خوبیاں جب ایک وجود میں نہ ملی تو انسان نے مایوسی کا دامن تھام لیا ۔

ایسے میں مشرق کی وادیوں سے ایک ایسا مرد قلندر اٹھا جس نے اقبال کے قلمی نام سے مشہور ہو کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے اہل شعور کو بیدار کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔

 اقبال نے اپنی شاعری میں ایسے صاحب کمال کا نقشہ بنایا جس کی یہ دنیا ایک عرصے سے متلاشی تھی اور اقبال نے اپنے اس صاحب کمال کو "مرد مومن" کے نام سے روشناس کروایا ۔

اقبال کے مرد مومن کا تصور جب ہم کلام اقبال کے حوالے سے ذہن میں سجانے کی کوشش کریں تو ہم پر یہ نکتہ کھلتا ہے کہ اقبال کا مرد مومن قرآن میں بیان کردہ انسان مرتضیٰ نفسِ کاملہ کا متبادل نام ہے۔

اقبال کا مردِ مومن اولاً پیکرِ عشق ہے۔ یہاں ایک بات واضح رہے کہ کہ یہ عشق وہ روایتی شعرا کا عشق نہیں جس کے ذریعے ہمارا شعر و ادب کا دامن لبریز دکھائی دیتا ہے بلکہ اقبال کا تصورِ عشق دوسرے تمام شاعروں سے یکسر مختلف ہے ۔

اقبال کے نزدیک مرد مومن کا عشق پختہ عزم ، کردار اور جہدِ مسلسل ہے۔ یہ وہ عشق ہے جو عقل کے قالب میں نہیں سما سکتا۔

 

عشق کی ایک ہی جست نے طے کر دیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

 

اسی بنا پر اقبال عشق اور مومن کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں اور یہ کہ دونوں کا وجود ایک دوسرے کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا ۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں

 

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ

عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام

 

اقبال کا مرد مومن پیکر یقین بھی ہے۔ اس کا مطلب جہاں عشق کے ذریعے انقلاب پیدا کرنے کا متلاشی ہے وہیں مولا کی یاد میں مگن رہنا بھی اس کا ایک تقاضا ہے۔

قرآن مجید مردانِ حق کے ذکرِ الٰہی میں مگن رہنے کی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے۔

 

 (آلِ عمران 191:3)

وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حالت میں اللہ کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔

 

اس آیتِ کریمہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مرد مومن کا شِعار یہ ہے کہ کہ عملی زندگی کے ہنگاموں میں کاروبارِ حیات کو جاری رکھتے ہوئے وہ یادِ الٰہی سے لحظہ بھر غافل نہیں ہوتا۔ اس طرح صاحبِ یقین دوسرا وصف ہے جو اقبال اپنے مرد مومن میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔

اقبال کا مردِ مومن مرد حق بھی ہے۔ جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں

 

آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی

 

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

 

لیکن یقین کی منزل پر فائز ہونے کی وجہ سے اس کا بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ نصرت و تائید پر ہوتا ہے

 

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

 

جب اقبال ساری دنیا کو بندہ مومن کی میراث قرار دیتا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کا ہو جاتا ہے اور اللہ اس کا ۔ پھر ساری کائنات اس مردِ مومن کو اپنا محور بنا لیتی ہے۔

کائنات کی ہر شے مومن کی متلاشی ہو جاتی ہے اور مومن اللہ کی رضا کا متلاشی کو جاتا ہے۔

حدیث ہاک میں یے

من اطاع اللہ فقد اطاع کل شیء (سنن ابنِ ماجہ)

جو اللہ کا مطیع ہو جاتا ہے، کائنات کی ہر شے اس کی مطیع ہو جاتی ہے

 

جس طرح اقبال نے اپنے اس شعر بندہِ مومن کا نقشہ کھینچا ہے

ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کار کشا ، کار ساز

 

مرد مومن کا اگلا وصف جسے علامہ نے اپنے کلام میں طائر لاہوت سے تعبیر کیا ہے وہ اس مقام کی یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 

جب بندہ مومن جذبِ خاک سے آذاد ہو کر عالم بشریت اور عالم ِملکیت کے تمام پردے چاک کردیتا ہے تو عالم مکاں کی حدود سے باہر نکل کر عالمِ لامکاں کا مسافر بن جاتا ہے۔ طائر لاہوت رہتا تو عالمِ خاک میں ہے مگر اس کی پرواز کی جولانیاں عالمِ لاہوت میں ہوتی ہیں

اقبال ایک جگہ لاہوت کے پرندے کا مقام بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

 

ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشا کش

خاکی ہے مگر خاک سے آذاد ہے مومن

 

جب مندرجہ بالا تمام اوصاف ایک خاکی وجود کا حصہ بن جائیں تو وہ مردِ مومن بن جاتا ہے جس نے اپنی خودی کی پوری تربیت کی ہو اور خودی کے تینوں مراحل ضبطِ نفس، اطاعتِ الٰہی ، اور نیابتِ الٰہی طے کرنے کے بعد ایک ایسے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ جس کو خلیفہ فی الارض یا اشرف المخلوقات کہتے ہیں

 

انسانِ کامل یا مرد مومن کی زندگی ایسی خوبصورت زندگی ہوتی ہے کہ جس کے بعد انسان ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے کہ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کا کلام خدا کا کلام بن جاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ جہاں پر پہنچ کر انسان لاہوت کے مقام کو چھو لیتا ہے۔ اسی نکتہ کو اقبال نے زیرِ بحث موضوع کے مصرع میں فرمایا ہے

 

 

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان ایک کامل ولی اللہ بن جاتا ہے اور پھر نگاہوں سے ہزاروں کی تقدیریں بدل دیتا ہے

بقولِ شاعر

 

نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

 

اقبال کا مردِ مومن ایک ایسا کامل انسان ہے جس کا نقشہ ہمیں قرآن مجید میں ملتا ہے اس لئے اپنی اس لئے اپنی نگاہ سے تقدیریں بدلنے کے لئے پہلے ہمیں اقبال کا مردِ مومن بننا پڑے گا اس کے بعد ہم نگاہوں سے کائنات کو یکسر بدل سکتے ہیں

 

چھپی ہے ان گنت چنگاریاں، لفظوں کے دامن میں

ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ

Amir shahzad





Post a Comment

Previous Post Next Post