Insaniyat Ki Bhulai Written By Fakhar Zaman Sarhadi
Insaniyat Ki Bhulai Written By Fakhar Zaman Sarhadi
انسانیت کی بھلائی۔۔۔۔
تحریر۔۔۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔۔۔
پیارے قارئین!انسانیت کی بھلائی
کا پیغام اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم بغیر کسی نسلی,خاندانی اور نسبی تعصب سے بالاتر
رہ کر خدمت انسانیت کا مقدس فرض نبھائیں۔مخلوق چونکہ خدا کا کنبہ ہے۔اس لیے اس کی بھلائی
چاہنا بھی خوبصورت عمل ہے۔انسانیت کی بھلائی یہی ہے کہ تقوٰی کی راہ اختیار کرتے ہوۓ خدمت انسانیت کی بھلائی اور
بہتری کا فرض ادا کریں۔تاریخ اسلام کی ورق گردانی کریں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ
جب زمانہ جاہلیت کا زمانہ تھا تو انسانیت ہر لحاظ سے زوال کا شکار تھی۔کوئی مقام انسانیت
سے شناسائی نہ تھی بلکہ انسان خواہشات کا غلام تھا۔نفرت اس قدر کہ بھلائی کا تصور بھی
ختم تھا۔سکون اور اطمینان تلاش کرنے سے بھی نہ ملتا تھا۔جب رب کائنات نے انسانیت کی
قابل رحم حالت پر ترس کھایا تو کائنات میں عجب جانفزا کیفیت پیدا ہوئی۔بعثت نبوی ﷺ
سے ایک انقلاب آفرینی پیدا ہوئی۔انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا آغاز ہوا۔نفرتیں محبتوں
میں تبدیل,اور وقار انسانیت کا بھرم قائم ہوا۔حیات انسانی کے پیمانے قائم یوۓ۔انسانیت کو صراط مستقیم کا
نصب العین ملا۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اچھا سلوک اور رویہ ہی انسان کو
کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔محبتیں بانٹنے اور مصائب میں دوسروں کے کام آنے سے انسانیت
کا وقار بلند ہوتا ہے۔اتحاد ویکجہتی کی فضا سے ماحول میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی
ہے۔عقیدت کے پھول کھلتے اور الفت کے سمن زار سجتے ہیں۔یکسانیت اور احترام آدمیت کے
شگوفے مسکراتے اور چاہت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔انسانیت کی کامیابی کا انحصار آپ کے
لاۓ ہوۓ دستور حیات میں ہے۔یہ بات قابل غور بھی ہے کہ فتح مکہ کے موقع
پر آپ نے جانی دشمنوں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے منشور انسانیت قائم
فرمایا۔جس پر عمل پیرا ہو کر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔عصر نو کے منظرنامہ کے دریچوں میں
جھانک کر دیکھیں تو مسائل کا حل اور انسانیت کی بھلائی کا تصور اسوہ حسنہ میں ہے۔چونکہ
علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا ہے اس لیے علم حاصل کرنا اور دوسروں کو علم سکھانا
انسانیت کی سب سے بڑی بھلائی ہے۔آدمیت کا احترام اور انسانیت سے پیار سے سماج میں ترقی
ہوتی ہے۔وہ معاشرہ قابل رشک ہوتا ہے جس میں حسن اخلاق کی شمع روشن ہو اور اچھی خوبیوں
کا بول بالا ہو۔بغض,حسد,اور بخل سے معاشرتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔خوشگوار تبدیلی تو
ہمیشہ اچھے الفاظ,خوشنما کلمات اور بہترین جملوں سے ہی رونما ہوتی ہے۔ایک فلاحی معاشرہ
کا تصور اسی وقت اجاگر ہوتا ہے جب علم کی شمع سے سینے روشن اور منور ہوں۔آپ چونکہ حق
و صداقت کے پیکر تھے اس لیے آپ کی زندگی بھی مشعل راہ ہے۔سیرت رسول ﷺ ہمارے لیے نمونہ
کامل ہے۔آپ نے صداقت کو فروغ دیا ۔ امانت کا تصور پختہ کیا۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح
عیاں بھی ہے کہ کتاب الٰہی سے محبت سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں۔رزق حلال کمانے کا تصور
پختہ ہوتا ہے۔اس طرز عمل سے زندگی کی عبارت میں حسن و خوبصورتی کا تصور پختہ ہوتا ہے۔ہیں
لوگ وہی جہاں میں اچھے ۔۔۔۔آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔وہ معاشرہ اور سماج قابل رشک ہوتا
ہے جہاں الفت اور محبت کی فضا پائی جاۓ۔ہمدردی,مساوات,اور عدل پایا جاتا ہو۔ایک دوسرے کے دکھ
درد میں شریک ہونا احسن عمل ہے اس سے ایک فلاحی ریاست کا تصور بھی اجاگر ہوتا ہے۔ضرورت
اس بات کی ہے کہ عزم وہمت سے کام لیتے ہوۓ انسانیت کی خدمت کا تسلسل
جاری رہے۔بہترین زندگی بھی وہی شمار ہوتی ہے جس میں محبت اور ہمدردی پائی جاتی ہو۔عظمت
کا تاج انہی کے سر پر سجتے ہیں جو انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں۔