Darindgi written By Iqra Ansari

Darindgi written By Iqra Ansari

Darindgi written By Iqra Ansari


افسانہ

عنوان (درندگی)

ازقلم اقراء انصاری

یہ افسانہ ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے اس دنیا نے جینے تک نا دیا اس کی زندگی کہ ساتھی پیش آیا واقعہ جس کو الفاظ دینا میرے لیے مشکل کام ہے لیکن میں نے اسے لکھا تا کہ مزید کسی کی زندگی کسی دھوکے کے پیچھے خراب نا ہو۔۔۔۔۔۔۔

 

فاہا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی لاڈلی اور جان سے پیاری۔۔

اس لڑکی کو دیکھیں تو ایسے لگتا تھا جیسے محبت اس کی رگ رگ میں بسی ہو۔

ہر ملنے والے سے اخلاق سے ملنا اس کے ملنے میں بھی ایسی چاہت تھی کہ بار بار ملنے کو دل چاہے۔

وہ لڑکی خود سراپائے محبت تھی۔

فاہا یونیورسٹی میں اپنے آخری سال میں پڑھ رہی تھی۔

اس کے سارے ٹیچڑز اس کی رسپیکٹ کرتے تھے اور اس سے خاص اپنائیت اور محبت رکھتے تھے۔

وہ محبت جس میں عقیدت ہوتی ہے ماسوا ایک ٹیچڑ کے۔

اس کی زندگی خوشیوں سے بھر پور پھولوں جیسی معصوم سی تھی۔

اس کی ماما کی ڈیتھ کو چارسال ہو چکے تھے۔

پھر جیسے تیسے اس کے باپ نے اسے یونی میں داخلہ لے کر دیا اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیا۔

وہ تا حد نظر نازک سی اور چھوٹے سے دل کی مالک تھی۔

اس کے بابا ہارٹ پیشنٹ تھے۔ان کا اپنا کاروبار تھا اور کافی حد تک پھیلا ہوا تھا۔

اسے کسی بھی چیز کی کمی اس کے بابا نے ہونے نہیں دی تھی۔

فاہا انجینئرنگ کر رہی تھی اس کا اپنے تمام استاد کے ساتھ ایک الگ قسم کا تعلق تھا سوائے ایک زمان علی انصاری کے ساتھ۔

 وہ پڑھائی میں اچھی خاصی لائق فائق لڑکی تھی۔

لیکن زمان سر اسے شروع دن سے ہی عجیب شخصیت کے لگے تھے۔

وہ انسان شکل سے ہی بدتمیز اور غیرت سے خالی لگتا تھا۔

اس کی نظریں اس کی سوچ ہر لڑکی کے لیے ایک تھی۔

کالج میں وہ تھا تو ریاضی کا استاد لیکن ہر لڑکا انھیں ہریسمنٹ کا استاد کہتا تھا۔

فاہا نے جب یونی جانا شروع کیا تو پہلے تو وہ اس کی نظروں سے خائف ہوتی تھی۔

ان کی تنگ نظروں سے وہ خود بھی گھبرا جاتی تھی۔

لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے اس کے دماغ پر اپنی ایسی چھاپ چھوڑی کہ اب اسے پوری یونی بھی کہے گی کہ یہ بندہ غلط ہے تو وہ یقین تو کیا ان کی بات پر کان تک نہیں دھرے گی۔

چونکہ اب اس کا آخری سال تھا تو وہ بھی گزر گیا اسی صورت حال میں۔

"اس کے بابا نے اسے یونی آنے سے قبل ایک بات باور کروائی تھی کہ بھروسے کے قابل صرف آپ کے اپنے ہوتے ہیں......جن میں پہلے باپ اور پھر بھائی آتے ہیں.....ان کے الاوہ باہر کا مرد..اور جو ہو بھی نا محرم.... آپ کے ساتھ کتنی ہی محبت کیوں نا کر لے وہ کبھی آپ کہ ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا۔"

وہ اس  نصیحت کو فراموش کر بیٹھی تھی لیکن اسے اس بات کا ابھی علم نہیں تھا کہ وہ خود کے لیے اندھیر قبر کھود رہی تھی جس میں وہ خود تو گرے گی ہی اپنے باپ کو بھی گرائے گی۔

ایک آخری مہینہ اور ٹھیک مہینے کے بعد ان کے پیپرز تھے۔

زمان عمر میں فاہا سے چار سال بڑا تھا ا س نے کافی دفعہ کہا تھا کہ وہ اس کی انجینئرنگ ختم ہونے کے بعد رشتہ بھیجے گا جس پر وہ بات کو بلکل بدل دیتا تھا۔

جیسے جیسے پیپرز قریب آ رہے تھے فاہا ان میں مصروف ہوتی گئی۔

مہینے کے درمیان میں کالج کی طرف سے آخری پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔

جس میں ان کے بیچ کے تمام اسٹوڈینٹس کو مدعو کیا گیا تھا۔

فاہا اس دن بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ساری آنکھوں کی توجہ اس نے اپنی طرف مبذول کی ہوئی تھی۔

اس نے پیروں تک آتا سرخ فراک زیب تن کیا ہوا تھا جس کے بازو شانوں تک برہنہ تھے۔

سرخ لپ اسٹک..فل میک اپ سے لدا ہوا چہرہ...بالوں کو سیدھا کر کہ شانوں پر آدھے آگے کو اور آدھے پیچھے کو ڈالے تھے۔

کانوں میں ملتے جلتے لمبے لمبے ٹاپس پہنے ہوئے تھے۔ہاتھوں میں چوڑیاں ،بریسلٹ اور مخروطی انگلیوں میں نگینے،صراحی دار گردن میں زمان کا دیا ہوا لاکٹ پہن رکھا تھا۔

جو دیکھنے میں عجیب بھی تھا اور خوبصورت بھی تھا۔

وہ پارٹی میں موجود اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی کے اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی اس نے میسج کھول کر دیکھا تو زمان کا تھاجو اسے ہوٹل کے کمرہ نمبر ۱۰۵ میں بلا رہا تھا۔

فاہا سب کو ابھی آنے کا بول کر جلدی سے کمرہ نمبر 105 میں گئی۔

اسے یہ تک یاد نہیں رہا کہ وہ ایک نامحرم کے پاس جا رہی ہے یہ بھی نہیں کہ وہ کسی مشکل میں بھی پھنس سکتی ہے۔

جس وقت فاہا نے اپنے قدم کمرے میں رکھے زمان کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا جسے دیکھ کر وہ ایک لمحہ کے لیے ٹھٹھک گئی۔

پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آگے آئی۔

زمان نے سراعت سے پہلے دروازہ بند کیا پھر قدم بہ قدم اس کے قریب آیا بلکل اس کے پیچھے۔

فاہا پوری کی پوری پسینے میں شرابور کھڑی تھی۔اسے یہاں آنا اب غلط لگ رہا تھا۔

اب جب وہ اس کے بلکل قریب تھا۔

"مان؟آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟"خوف کی سردلہر اس کے جسم میں سرائیت کر گئی جب اسے اپنے بازو پر اس کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا تھا۔

وہ بدک کر اس سے دور ہوئی تھی۔

"ایسے سوال کبھی نہیں کرتے جن کے جواب پہلے سے پتہ ہوں۔"وہ شراب کے نشے میں دھت اسے ڈرنے پر مجبور کر گیا تھا ورنہ جس کے ساتھ ایک کیمپ میں چار سال گزرے ہوں وہاں خوف نہیں ہوتا۔

زمان نے اسے ایک جھٹکے میں اس کی شہ رگ سے پکڑا تھا۔

"چار سال میں نے اس دن کا انتظار کیا ہے جان من۔چار سال میں نے اپنی ہَوَس کو دبائے رکھا اسی ایک دن کے لیے۔"

"زمان مجھے جانے دو بابا پریشان ہو رہے ہوں گے پلیز جانے دو۔۔"اس نے روتے بلکتے کہا

زمان نے اسے اتنی زور کا دھکا دیا تھا جس سے وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی۔

وہ رات نہیں تھی اس کے لیے قیامت تھی جو  اس پر نجانے کتنی دیر تک برستی رہی تھی۔

اس درندے نے اس پر اپنی درندگی دکھائی تھی۔اس کے اندر اس نے زہریلے تیر چبھوئے تھے۔ کیا اب وہ خود کو آئینہ میں دیکھ پائے گی؟

اس کی روح تک کو تو چھلنی کر دیا تھا اس نے۔

وہ درندہ اسے نوچ رہا تھا اور فاہا اپنے رب کے آگے فریاد کرتی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔

اس پر ظلم کیا اس شخص نے جس سے اس نے چار سال محبت کی تھی۔

اس شخص کو اپنے اندر بسایا تھا۔

اسے اپنا سمجھا تھا اس کے ساتھ زندگی کے خواب سوچے تھے لیکن اسی نےآج اس سے اپنی ہوس کی تمنا پوری کی تھی۔

پھر اس کے مردہ اور سفید پڑتے جسم کو چھت پر لے کر گیا۔

بظاہر وہ سانسیں لے رہی تھی لیکن اندر سے مر چکی تھی بلکل مردہ۔

کہاں گیا اس کا انجینیئر بننے کا خواب؟کہاں گئی وہ ڈگری جو اسے ملنی تھی؟کہاں گئے وہ خواب جو اس نے اس درندے کے ساتھ دیکھے تھے؟کہاں گئے وہ پیپرز جو کچھ ہی دنوں میں ہونے والے تھے؟سب کچھ تو نوچ کر الگ کر دیا تھا اس نے اس سے۔کہیں کا بھی تو نہیں چھوڑا اسے۔

وہ چھت پر اسے ایک کونے میں پھینک کر چلا گیا۔

وہ شخص جس سے ہم محبت کرتے ہوں اور وہ ہی اگر ہماری روح پر ایسے ایسے نشتر چبھو دے تو انسان زندہ رہتا ہے؟اس کو سانس آ کیسے جاتی ہے؟

جب اسے ہسپپال لے کر جایا گیا تو اس کا والد اس کی یہ حالت برداشت نہیں کر سکا.. ان کو میجر ہارٹ اٹیک ہوا تھا جس سے ان کی ڈیتھ ہو گئی۔

ان کی ڈیڈ باڈی کو کون لے کر جاتا ان کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا جو ان کا کفن دفن کرتا۔

ان کی ڈیڈ باڈی ہسپتال کے سرد خانے میں لاوارث پڑی رہ گئی۔

اتنے امیر ہونے کا کیا فائدہ؟کے موت آنے پر ایک کفن اور قبر تک نا نصیب ہو۔

فاہا کوما میں چلی گئی تھی ایک سال بعد اسے ہوش آیا۔

جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تو اس کو سب یاد تھا لیکن اس نے اپنے منہ پر چپ کا ایسا قفل لگایا تھا جو ٹوٹنا نا ممکن تھا۔

اسے کسی چیز کی ہوش نہیں تھی اسے یاد تھی تو ایک وہ رات وہ قیامت کی رات.....

ان کا کاروبار بند ہو گیا وہاں کسی اور کا قبضہ ہو گیا ایک گھر تھا اس کے پاس صرف ایک گھر۔۔۔۔

اس نے اس درد بھری رات کو بھلانے کے لیے نشہ شروع کر دیا۔

نشہ کرتی گئی۔۔کرتی گئی اور اب اس کی یہ حالت تھی کہ کھانے کے بغیر تو رہ سکتی تھی لیکن نشے کے بغیر نہیں۔

وہ نشے میں دھت سڑکوں پر پڑی رہتی تھی اس کی حالت دیکھنے کے قابل نہیں تھی۔

جو دیکھتا تو ضرور کانپ جاتا۔

نشہ پینا،کرنا، اس کے انجیکشنز سب اس کی زندگی کا معمول بن گیا تھا اور پھر ایک دن جو رہی سہی  سانسیں وہ گن گن کر لے رہی تھی ان کی ڈور بھی ٹوٹ گئی۔

وہ سڑک پر بے جان پڑی تھی اور اس کا گھر ویران پڑا تھا۔۔۔

کیا گیا اس لڑکے کا جس نے اسے اس حال میں پہنچایا۔وہ تو کسی نئی طاق میں بیٹھا ہے۔

اور کسی اور فاہا کو دفن کرے گا نئے طریقے سے نئے انداز سے۔۔۔۔

ہمیں اپنی یونیورسٹیز کے حالات پر غوروفکر کرنی چاہیے تا کہ کوئی بھی لڑکی فاہا جیسی موت نا مرے۔

 ایسے لڑکوں کو بدترین موت دینی چاہیے تا کہ کوئی اور لڑکا آنکھ اٹھا کر بھی کسی کی طرف نا دیکھے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

 


Post a Comment

Previous Post Next Post