Mehsoos Karo Es Dard Ko Written By Rabbia Bint E Umer

Mehsoos Karo Es Dard Ko Written By Rabbia Bint E Umer

Mehsoos Karo Es Dard Ko Written By Rabbia Bint E Umer

کہانی: محسوس کرو اس درد کو

 رائٹر: ربیعہ بنت عمر 

ایک چھوٹی کمسن بچی جس کی عمر لگ بھگ دس یا بارہ سال ہو گی

اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو اٹھایا ہوا تھا، اس کے ساتھ اس کے دو چھوٹے بھائی اور باپ تھا جو بیساکھیوں کا سہارا لے کر چل رہا تھا

یہ لوگ فقیر تھے جو لوگوں کے گھروں میں جا کے مانگتے تھے۔۔

دوپہر کے بارہ بجے وہ چھوٹی بچی ایک گھر میں داخل ہوئی سامنے ایک عورت کو دیکھ کے اس سے چیزیں مانگنے لگی

 "اللہ کے نام پہ روٹی دے دو باجی صبح سے بھوکے ہیں ہم بہن بھائی"

وہ عورت کوئی چیز لینے کے لیے اندر گئی تاکہ اس بچی کو دے سکے جب وہ عورت واپس آئی تو وہ بچی ان کے کچن کے اندر تھی عورت کو دیکھتے اس کے ہاتھ سے شاپر نیچے گرا ۔۔

اس عورت نے اس بچی کو ڈانٹا کہ وہ باورچی خانے میں کیوں داخل ہوئی اور اس کو پیسے/گندم دے کر باہر نکالا۔

تقریبا پندرہ منٹ بعد وہ عورت چلائی

'میرا فون نہیں مل رہا ہائے میرے اللہ وہ بچی میرا فون چوری کر کے لے گئی '

شور سن کے گلی محلے کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور سب ان لوگوں کو ڈھونڈنے لگے بار بار اس عورت کے نمبر پہ کال کی جا رہی تھی لیکن نمبر بند جا رہا تھا۔۔

تقریبا ایک گھنٹہ بعد ایک مرد اس بچی اور اس کے باپ کو  پکڑ کر لے آیا وہ دونوں اسی گاؤں سے مل گے تھے ۔۔گاؤں میں دارے بنے ہوتے جہاں پنچایت  بیٹھتی اور گاؤں والوں کے مسئلے سلجھاتی۔ان کو پکڑ کر لایا گیا اور گاؤں کے لوگ خود ہی اس بچی اور اس کے باپ سے تفتیش کرنے لگے،بچی کا باپ قسمیں کھا رہا تھا کہ اس نے موبائل فون چوری نہیں کیا اور یہ بات سچ بھی تھی کیونکہ اس بچی کا باپ اس بات سے لاعلم تھا کہ اس کی بیٹی نے چوری کی ہے۔

بچی بھی بار بار انکار کر رہی تھی کہ اس نے فون چوری نہیں کیا لیکن جب ان کی تلاشی لی گئی تو جو شاپر بچی کے پاس تھا اس میں گندم تھی اور اس گندم کے اندر اس نے فون کو چھپا رکھا تھا ۔دارہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی کیونکہ اکثر گاؤں  کی عورتیں ایسے شغل دیکھنے پہلے پہنچ جاتی بے

جیسے ہی اس بچی سے موبائل فون ملا تو گاؤں کے لوگوں نے اس بچی اور اس کے لاچار باپ کو بہت مارا۔۔ایک مرد نے اس بچی کے باپ سے اس کی بیساکھی لے لی کیونکہ اس کے نزدیک وہ بیساکھی پکڑنے کا ناٹک کر رہا تھا جیسے ہی اس سے بیساکھی لی گئی وہ ان کے پاوں میں گر گیا کیونکہ بغیر سہارے وہ کھڑا نہیں رہ سکتا تھا اور رو رو کے معافیاں مانگنے لگا ۔۔

محلے کی عورتوں نے اس کمسن بچی پہ ہاتھ صاف کیے کبھی اس کے منہ پہ تھپڑ مارے جاتے تو کبھی اس کو بالوں سے پکڑ کے مارا جاتا اکثر نے اپنے جوتو ں کے ساتھ اس بچی کو مارا صرف عورتیں ہی نہیں مردوں نے بھی اس بچی پہ ہاتھ اٹھایااور اس کو اس کے باپ کی بیساکھیوں سے مارا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جو جتنا ظلم کر سکتا تھا اس نے اتنا ان دونوں پہ کیا۔

ان ظالم لوگوں میں کچھ خدا ترس لوگ بھی تھے انہوں نے باپ بیٹی کو چھڑایا اور ان کو جانے دیا!!!!!

چوری کے جرم میں اس بچی اور باپ پہ جو ظلم ہوا میرا دل اس پہ خون کے آنسو رویا ۔۔ہم ہمیشہ وہ چیز ہی کیوں دیکھتے جو بظاہر نظر آ رہی ہوتی ہم اس چیز کے دوسرے رخ کو کیوں نہیں دیکھتے؟

ٹھیک ہے اسلام میں چوری کرنے والوں کے ہاتھ تک کاٹنے کا حکم ہے لیکن وہ کم عمر اور بن ماں کے بچی تھی اس پہ اتنا ظلم نہیں کرنا چاہیے تھا مردوں عورتوں نے اس بچی کو مارا اس کے منہ پہ جوتے اور تھپڑ  مارے گے اس بچی کے باپ نے بھی غصےمیں آ کر اپنی بیٹی کو مارا یہاں تک کہ اس کے سر میں اس کے باپ کی بیساکھی ماری گئی۔۔

جن کا موبائل فون چوری ہوا تھا ان لوگوں کا حق تھا وہ ان کو سزا دیتے یا مارتے لیکن انہوں نے ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا بلکہ ان خدا ترس لوگوں نے ان دونوں باپ بیٹی کو ان ظالموں سے آزاد کروایا

میرا سوال یہ ہے کہ کسی نے اس بچی سے بھی پوچھا تھا کہ اس نے چوری کیوں کی؟؟؟؟؟؟؟؟؟

غربت کرواتی چوری ،بھوک کرواتی چوری، جب گھر میں کچھ نہ ملے پھر کرتا انسان چوری ۔۔ان کے جانے کے بعد جو بھی وہاں آتا وہ ایک بات ہی کہتا کاش میں بھی اس وقت وہاں ہوتا اس بچی کا منہ توڑ دیتا

"کیا واقعی ہم انسان ہیں؟ اتنے ظالم تو درندے بھی نہیں ہوتے جتنا ظالم یہ انسان ہے شاید وہ بھول چکا ہے جو اوپر ہمیں دیکھ رہا وہ اس کے ظلم سے بچ نہیں پائے گا"

دکھ ہوتا ہے اس بچی کے لیے کہ اس کو خدا نے غریب گھرانے میں پیدا کیا اور تم لوگ رب کا شکر ادا کرو کہ تمہیں دو وقت کی روٹی کے لیے چوری نہیں کرنی پڑتی!!

"ہمیں جو چیزیں اتنی آسانی سے مل جاتی کچھ لوگ ان چیزوں کے لیے ترس رہے ہوتے لیکن اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں یہ سب تو اس رب کا کھیل ہے"

آج کے دور میں کونسا ایسا بچہ ہے جس کے پاس موبائل فون نہیں ،ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتا ۔۔اگر یہ کہا جائے کہ اب پیدا ہوتے ہی بچے کو فیڈر کی جگہ موبائل فون چاہئے تو یہ جھوٹ نہیں ہو گا ۔۔تو پھر کیا اس بچی کے سینے میں دل نہیں تھا؟ کیا وہ نہیں چاہتی کہ جیسے سب سکون کی زندگی گزار رہے وہ بھی گزارے ،سب بچوں کے پاس فون اس کے پاس کیوں نہیں!!

لوگ کہتے ہیں ہمارے اوپر مصیبت آ گی ہم تو صدقہ خیرات بھی کرتے تھے لیکن جو غریبوں پہ ظلم کرتے کیا ان پہ اس وجہ سے مصیبتں نہیں آ سکتی۔۔مظلوم کی بددعا سے بچو ۔قران میں بھی معاف کرنے کا حکم ہے۔

اگر آپ کا بچہ چوری کرے اور کوئی باہر والا اس کے منہ پہ تھپڑ اور جوتے مارے تو کیا آپ کو درد نہیں ہو گا؟؟؟؟؟

خدارا اگر کوئی ایسا کرے تو بجائے اس کو مارنے پیٹنے کے اس کو کچھ اضافی پیسے دے دیا کریں خدا کی نظر میں آپ کا مقام مارنے سے نہیں بلکہ کسی کو ظلم سے بچانے، اس کی مدد کرنے سے اور معاف کرنے سے بڑھتا ہے♡♡

                                         ختم شد

Post a Comment

Previous Post Next Post