Aye Zindagi Written By Hina Irshad
Aye Zindagi Written By Hina Irshad
اے زندگی! تو بیشک بہت مختصر ہے لیکن
تو ذرا آہستہ چل۔ تو مجھے ذرا سا جینے دے۔ مجھے ابھی بہت کچھ پانا ہے۔ مجھے ابھی انہیں
بھی سچ بتانا ہے' جنہیں انکی خوشی کے لیے' میں نے چھوڑ دیا تھا۔
اے زندگی! اگر تو محسوس کرے تو میری
اذیت محسوس کر' مجھے ابھی کچھ درد مٹانے' کچھ فرض نبھانے' کچھ قرض چکانے ہیں' میری
تیز رفتار زندگی بیتانے سے کچھ لوگ روٹھ گئے اور کچھ چھوٹ گئے ہیں' انہیں منانا اور
ہنسانا باقی ہے۔
اے زندگی! تو کچھ تو مجھے مہلت عطا کر' میری کچھ حسرتیں' کچھ خواہشیں' کچھ کام باقی ہیں ۔
اے زندگی! تو مجھے بس اتنی طاقت عطا
کر' مجھے ابھی کچھ خواب اپنے اندر دفنانے ہیں۔
کچھ امیدوّں کو مٹا کر کچھ لوگوں کے لیے امیدوں کے دیے
جلانے ہیں۔
اے زندگی!تو مجھے صرف اتنی سی مہلت دے' مجھے اپنے چھوٹے رشتے نبھانے اور ان کہیں رشتے جو
دل میں آباد ہیں' انہیں انکے حق دلانے ہیں۔
اے زندگی تو رک ذرا! میں دکھاؤں تجھے' میرے اندر کتنے نوحے' کتنی فریادیں' کتنی سسکیاں باقی ہیں ۔
اے زندگی اب تو ہی بس اتنا کرم کر مجھ پہ' میں اب بھی
جنکی آس ہوں انہی کے لیے کچھ سانسیں تجھ سے ادھار لینا باقی ہیں۔
اے زندگی تو تھوڑا مجھے پیچھے چھوڑ کر چل تو' تیرے بن
تو میں بھی چل نہیں پاؤں گی لیکن جن کا میری سانسوں پہ قرض ہے' انکو سمجھانا باقی ہے۔
اے زندگی تو' تو اک وسیع ڈائری ہے' مجھے ابھی تجھے پڑھنا
باقی ہے۔
اے زندگی! تجھے تو معلوم ہے کہ مجھے
تو ایسا نہیں بننا تھا' جو سب کے درد یا آنکھوں میں نمی کا باعث ہو۔
اے زندگی! مجھے ابھی کسی کا مان بننا
تھا' میرے اندر ابھی بہت سی باتیں ہیں ۔
اے زندگی!کم از کم تو' تو سمجھ میرے اندر جو آگ لگی ہے' اسے نہ کسی کی واہ اور نہ ہی کسی
کی آہ کی ضرورت باقی ہے۔
اے زندگی! اب میں بہت تھک چکی ہوں'
مجھے اک پرسکون نیند چاہیئے۔ جس میں میرے اپنے
سپنے دیکھنے باقی ہیں۔
اے زندگی چل اب ہر رشتہ' ہر خواہش میں نے اپنی اذیت میں
دفنا دی ہے لیکن مجھے اک ذات سے اب بھی معافی مانگنی ہے۔
اے زندگی تو بتانا میرے رب کو' غلطیاں سب تھیں لیکن میری گناہ
سے بھی شاید بھاری تھیں۔
اے زندگی تو بس اب چند قدم ٹھہر جا! ابھی مجھے اپنے خالق سے اپنی مغفرت مانگنی ہے۔
اے زندگی تو اب تو رک ذرا! کچھ ملال جو بہت باکمال ہیں'
مجھے انہیں دھونا ہے۔ تھوڑا رو کر' خود کو سنوارنا ہے۔
اے زندگی ابھی تھکن اتارنی ہے۔ کچھ تیرے اشاروں پہ گزاری
تھی' اب کچھ خود کے سنگ گزارنی ہے۔
اے زندگی تو نے تو دیکھے ہیں میرے رنگ
کتنے تھے اپنوں کے سنگ
کتنے تھے سپنوں کے سنگ
اک میں کسی کی تشنگی تھی شاید
اب مجھے انکی پیاس مٹانی ہے
ان سے مل کے اپنے اندر ٹھہرے دریا کو بہانا ہے
انہیں بتانا ہے' دل مجبور تھا اگر
تو پاؤں میں بیڑیاں بھی باقی تھیں
از حناء ارشاد