Chunri Written By Iqra Fatima

Chunri Written By Iqra Fatima

Chunri Written By Iqra Fatima


"چنری"

اقراء فاطمہ

 

اس محلے کا مکیں ہوئے اسے چند روز ہی ہوئے تھے۔مگر ہر چند ہر صنف کی نگاہوں کا مرکز بن گیا تھا۔بلکل ایسے جیسے برسوں بعد کسی بند گلی میں بھولا بھٹکا کوئی سورج آن نکلا تھا۔اور لوگ دیوانہ وار اس کے دیدار کو چھتوں پر نکل آئے تھے۔انہی اسیرٔ نگاہ کی صف میں کھڑی، وہ بھی آج اس درخشاں آفتاب کے دیدار کی آس لیے اپنے اونچے گھر کی ایک بند کھڑکی کی درز سے جھانکتی ہوئی اس وقت بے چینی کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔مگر اس سے پہلے کہ اس چندے آفتاب چندے ماہتاب والے حسن کی، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک سے اپنی کو روشنی بخشتی۔ یا پھر اپنی اسی بے خودی میں مست اپنی حدود پھلانگتی اس بے فیض آفتاب کی بے رحم شعاعوں سے اپنی نازک آنکھوں کو چندھیا جانے پر مجبور کرتی، وہ اپنی بینائی سے ہی محروم ہو جاتی۔کسی اپنے نے اسے اس کی کہنی سے تھامتے ہوئے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔

"کیا ہے بھابھی! دیکھنے دیں نا۔سبھی تو دیکھتی ہیں اسے۔اگر آج میں دیکھ لوں گی تو کیا ہو جائے گا۔ویسے بھی ابا یا بھائی میں سے کونسا کوئی گھر پر ہے۔جو آپ مجھے منع کرنے آ گئی ہیں۔"،اپنی بھابھی کے کچھ بھی کہنے کو لب وا ہونے سے قبل ہی اس نے ایک لمبی تاویل ان کے گوش گزار کر دی تھی۔اس خوف کے زیرٔاثر، مبادا وہ اسے روک ہی نہ لے۔

"دیکھو گڑیا! میں تمہیں یہاں اسے دیکھنے سے منع کرنے نہیں آئی۔کیونکہ اگر باقی اصناف کا اس پر حق ہے اور وہ اس حق کو استعمال کر رہی ہیں۔ تو میں تمہیں بھی اس حق کو لینے سے نہیں روک سکتی۔مگر اس سے پہلے میری ایک بات کس کر اپنے پلو سے باندھ لے۔اپنے دل کی یہ صلاح مانتے ہوئے بس ایک بات کا خیال رکھنا۔یہ درز جس سے تم تھوڑی دیر پہلے باہر جھانک رہی تھی۔ خیال رکھنا درز ہی رہے۔ کہیں کھلے پٹ میں نہ بدل جائے۔کیونکہ اگر یہ کھلے پٹ میں بدل گئی نا تو آج یہ چنری جو تمہارے سر پر ٹکی ہے نا،گڑیا!۔اڑ جائے گی۔کسی اڑتی کٹی بےمہار پتنگ کی طرح۔۔۔۔۔جو کٹ کر اڑ جائے تو کبھی واپس نہیں آتی ۔۔۔۔اس لیے بس! جو بھی کرنا مگر اپنی اس چنری کی حفاظت ضرور کرنا۔۔۔۔۔اور ہمیشہ خیال رکھنا! کیونکہ کبھی کبھی ضرورتأ یا سہوا کھولے جانے والے یہ پٹ اکثر ہوا سے بھی کھل جاتے ہیں۔اور پھر چنری ہو یا چادر،دغا دے جاتی ہے۔۔۔۔۔!"،بھابھی تو اپنی بات کہہ کر جا چکی تھی۔لیکن وہ جو اپنے کسی انجانے بے لگام شوق کی لگام تھامے وہاں آئی تھی۔ بےرحم ہوا کے ڈر سے واپس مڑ گئی تھی۔کیونکہ جو بھی تھا۔شوق چاہے کتنا ہی مہنگا یا دل کے قریب کیوں نہ تھا مگر چنری اسے ان سب سے اور بے رحم ہواؤں سے کی گئی گنا عزیز تھی۔


Post a Comment

Previous Post Next Post