Ankhain Rooh Ki Khidkiyan Written By Iqra Fatima
Ankhain Rooh Ki Khidkiyan Written By Iqra Fatima
آنکھیں روح کی کھڑکیاں
رائٹر: اقراءفاطمہ
کبھی سوچا ہے کہ دنیا کے قدیم
قصے کہانیایوں میں جہاں کہیں بھی دو لوگوں کی بات ہوتی ہے۔ان دو صنف مخالف کے مابین
دلی روابط کی بات ہوتی ہے۔اور جنہیں جب بھی ہم پڑھتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ان میں ایک
چیز ہمیشہ مشترک کیوں ہوتی ہے۔ایک ہی بات ہمیشہ یکساں کیوں پائی جاتی ہے۔جب کہیں بھی
کسی عزت دار گھرانے کی لڑکی کا ذکر آتا ہے وہاں اس کے بہک جانے کی شروعات کھڑکی سے
ہی کیوں ہوتی ہے۔اور جہاں کسی مرد کی مدہوشیوں کا ذکر آتا ہے۔وہ حسن پہ فریفتہ ہوتا
ہی کیوں مدہوش و بہک جاتا ہے۔کبھی غور کیا ہے یہ قصے یہ کہانیاں،جنہیں ہم وقت گزاری،اپنے
ذوق کی خاطر یا محظ اپنے آس پاس کی دنیا سے قطع تعلقی کے لیے جن کا وقتی سہارا لیتے
ہیں۔وہی عام سے قصے کہانیاں کبھی کبھار ہمیں بہت بڑا سبق دے جاتے ہیں۔لیکن ہم یا تو
جان نہیں پاتے یا جانتے ہیں لیکن ان اشاروں کو ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔اور یا پھر
سمجھ پاتے ہیں لیکن نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔آج بس ہم ان ہی باتوں کا ذکر
کر کے اپنے اس ایک سبق کو یاد کریں گے۔جسے آج کے دور میں شائد ہم سب ہی بھول چکے ہیں۔اور
ناصرف بھول چکے ہیں بلکہ اس بھول میں بہک کر اپنی دنیا و آخرت دونوں سے ہی بہت دور
جا چکے ہیں۔
یہ میرا ہی نہیں بلکہ اس دنیا
میں موجود ہر شخص کا موضوع ہے۔کیونکہ ہم میں سے ہر شخص ہی اس مرض کا شکار ہے۔اس بات
کی وضاحت کرتی چلوں کہ یہاں ذکر عشق و عاشقی کا یا بہک جانے کا نہیں ہو رہا۔بلکہ اس
وجہ کا ہو رہا ہے جو ہم سے سر زد ہو کر ہم سے یہ سب اور ان کی آڑ میں ہونے والے متعدد
معمولی اور غیر معمولی گناہوں کا سبب بن جاتی ہے۔جس سے ہم مطلق بے خبر ہی رہتے ہیں۔
"آنکھیں
روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں۔"
یہ جملہ ہم میں سے ہر انسان
اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار تو ضرور کہیں سنتا یا پڑھتا ہے۔جس کو جہاں کوئی صاحبء
ایمان وقت پر ہی سمجھ کر سنھبل جاتا ہے۔اور اپنی آخرت سنوار لیتا ہے۔وہیں میرے اور
آپ جیسا کمزور ایمان رکھنے والا۔یا تو اس جملے کی حقیقت ہی نہیں جان پاتا۔یا اگر جان
جاتا ہے تو شیطان ملعون کی ازلی شیطانی فطرت کے باعث بھول کا شکار ہو کر اپنی دنیا
اور آخرت برباد کر بیٹھتا ہے۔(ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔نہیں!۔بلکہ وہ
جو ذات اوپر ہے نا۔وہ بہت مہربان ہے۔وقفے وقفے سے ہمیں اشاروں سے،قلبی الہام سے سب
یاد کرواتی رہتی ہے۔ہمارے گناہوں کا احساس دلاتی رہتی ہے۔لیکن ہم نادان پھر بھی ناسمجھنے
کا عزم لیے اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔)تو یہاں بات ہو رہی ہے ان کھڑکیوں کی جنہیں ہم
اپنی زبان اردو میں آنکھیں کہتے ہیں۔ اور قصے کہانیوں سے ملنے والے سبق کی۔جہاں گھر
کی کھڑکی کھلنے سے اگر عورت ذات بہک جاتی ہے تو وہیں مرد حضرات اپنی آنکھوں کی کھڑکی
کھلنے کی بدولت گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔لیکن جانتے ہیں۔یہ آنکھوں کی کھڑکی جہاں
اہمیت کی حامل ہے۔وہیں اس سے اوپر بھی ایک کھڑکی کھلتی ہے۔جو آنکھوں اور روح کے درمیان
ہوتی ہے۔جسے ہم دل کی کھڑکی بھی کہہ سکتے ہیں۔آنکھوں کو روح کی کھڑکی بننے سے پہلے
دل کی نفسانی کھڑکی کے امتحان سے گزارا جاتا ہے۔جس سے گزرنے کے بعد جو صاحب ایمان اس
میں کامیاب ہو جائے وہ تو اہل مرتبہ میں شمار ہو جاتا ہے۔لیکن میرے اور آپ جیسے کمزور
ایمان والا اگر اس امتحان میں ناکام ہو کر سرخرو نہ ہو پائے تو دل کا مریض ہو جاتا
ہے۔اس دل کا مریض جس دل پر آنکھوں کے ذریعے بار بار ہونے والے گناہوں کی مشق اسے مردہ
بنا دیتی ہے۔ایسے کہ پھر گناہ تو ہوتا ہے آنکھوں سے، مگر دل اسے محسوس ہی نہیں کرتا۔وہ
پچھتاوے جو ہمیں کسی بھی گناہ کے بعد الہامی اشارہ کے طور پر ہوتے ہیں،وہ ہونا بند
ہو جاتے ہیں۔اور یوں ہم خبری اور بے خبری کی نامعلوم کیفیت میں گناہ کی دلدل میں دھنستے
چلے جاتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمیں اپنے ان گناہوں کا احساس ہی نہیں ہو پاتا۔
مثال کے طور پر ہم اپنی روزمرہ
زندگی میں ہر سمت آنکھوں کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ہر ہدف کے لیے ان ہی کھڑکیوں کو اپنی
راہگزر بناتے ہیں۔ جیسے کسی کے حق پر نظر رکھتے ہیں۔چاہے وہ ایک ٹافی ہی صورت کیوں
نہ ہو۔کسی کے ذاتی معاملات پر نظر رکھتے ہیں تو کسی کی غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ تاکہ
بعد میں طنز و تنقید سے اس کا جینا مشکل بنا سکیں۔صرف یہی نہیں دل و دماغ کیا ہم تو
روح کے معاملے میں بھی اپنی ان کھڑکیوں کی حفاظت نہیں کر پاتے۔اور یوںمسلسل اپنی بد
اعمالیوں سے اپنی روح کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔جس کے لیے ہماری اپنی خود کی زندگی
کی بےشمار مثالیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔جنہیں ہمیں کہیں جا کر ڈھونڈنے کے ضرورت
نہیں۔لیکن وہی بات کہ ہم سمجھتے نہیں۔جانے انجانے میں سہی لیکن ہم اپنی روح کو اپنی
آنکھوں کی ان ننھی بے ظرر کھڑکیوں سے آنے والی اس متعفن ہوا سے بربادی کی سمت لے جاتے
ہیں۔دل کی فضا خراب کر کے اپنی دنیا سے خیر و برکت کے آٹھ جانے کا ذریعہ بنتے ہی ہیں
مگر دوسری جانب روح کو برباد کر کے اپنی آخرت بھی برباد کر لیتے ہیں۔جو سراسر ہمارے
لیے گھاٹے کا سودا ہے مگر افسوس ہم سمجھتے نہیں ہیں۔
بس اس پاک ذات سے التجاء ہے
کہ وہ ہماری ان بے نور آنکھوں اور زخمی دل کو اپنی ہدایت کے نور سے منور فرما کر شفا
عطا فرما دے۔اور ہماری روح کو ان سے شاد و مسرور کر دے۔ان آنکھوں سے ہونے والے ہمارے
گناہوں کو اپنی پاک بارگاہ میں معاف فرما کر ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں لیتے ہوئے
ہمیں اپنے قریب فرما لے۔(آمین ثم آمین!)۔کیونکہ بے شک ان کھڑکیوں سے آنے والی اس کی
رحمت بھری ہوائیں ہی اس پر تعفن ماحول میں ہمارے دل و روح کو پاکیزہ کرنے اور ہمیں
دنیا و آخرت سنوار کر،روزٔ قیامت اس پاک اللہ رب العزت کی پاک بارگاہ میں سرخرو کرنے
کا ساماں رکھتی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ پاک!ہمارا شمار ہدایت والوں میں فرمائے۔آمین!