Uchhal Raha Hai Zamane Mein Naam Azadi Written By Nimra Amin

Uchhal Raha Hai Zamane Mein Naam Azadi Written By Nimra Amin

Uchhal Raha Hai Zamane Mein Naam Azadi Written By Nimra Amin


اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

 نمرہ امین، لاہور

 

 "پاکستان 14 اگست 1947 عیسوی بمطابق 27 رمضان المبارک 1366 ہجری کو معرض وجود میں آیا تھا۔"

ہمیں یہ "وطن عزیز" بہت سی قربانیوں، بہت سی جانیں ضائع کرنے کے بعد حاصل ہوا ہے۔ جس کے لیے پاکستان کے کارکنان نے اپنا دن رات ایک کر کے اس وطن کے خواب کو پورا کیا ہے۔

مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے جو خواب دیکھا تھا کہ شمال مغربی ریاستوں میں مسلمانوں کی آزاد ریاست ہو اور سب کارکنان نے بہت سے مصائب، مشکلات اور انتھک کوششوں، محنت کے بعد اس کو حاصل کیا تھا۔

پاکستان کا قیام صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد ایسی آزاد ریاست تھا جہاں مسلمان اپنے اللہ عزوجل اور پیارے حبیب محمد کی تعلیمات میں پر امن زندگی گزار سکیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہر جگہ ایک ہی نعرہ تھا "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔

لیکن افسوس! "ایک مسلمان اپنے پیارے وطن پاکستان کے قیام کا مقصد نظر انداز کیے بیٹھے ہیں"۔ جس وطن کو عبادت کرنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ آج اسی میں رہنے والے لوگ ہمارے پیارے نبی کے احکامات کی نافرمانی کرتے گھبراتے نہیں ہیں۔

یہ آزادی ہمیں بہت مشکلوں اور کوششوں کے بعد ملی ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ ہم چاہ کر بھی کبھی اس کا قرض نہیں چکا سکتے ہیں۔

ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جان کی بازی دینے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت کر سکیں جس کو "بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح" نے دن رات ایک کر کے بہت محنت، کوشش اور لگن سے حاصل کیا ہے۔ قائد  دن رات کام کرتے کرتے بہت بیمار ہوگئے اور اپنی بیماری کی آخری سٹیج پر پہنچ گئے مگر پھر بھی اتنی علالت کے بعد کام کرتے رہے اور آخرکار وطن پاکستان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

پیارے وطن عزیز پاکستان کو "آزادی" مل گئی اور مسلمان اس "جشن آزادی" میں اتنے خوش ہوگئے کہ ہر سال "جشن آزادی"  کو بہت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ "جشن آزادی" منانے کا مقصد اللہ کی دی ہوئی نعمت "آزادی" کا شکر ادا کرنا ہوتا ہے اور "شکر" کا تقاضا ہے کہ جس کی جانب سے نعمت ملی ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ مگر افسوس! آج کی قوم "جشن آزادی" منانے کے لیے نت نئے جتن کرتے ہیں بےحیائی کو عام کیا جارہا ہے۔ لڑکیاں حجاب کر کے گھروں میں رہنے کی بجائے تنگ لباس فیشن کر کے باہر سڑکوں پر نکل جاتی ہیں۔ ایک ساتھ لڑکے، لڑکیوں کے گروپ باہر ہلہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنے وطن کی آزادی منارہے نظر آتے ہیں۔ آزادی کے جشن کے لیے لڑکے لڑکیاں راستوں میں رقص کرتے پھرتے ہیں، ہوائی فائرنگ، ون ویلنگ، سلنسر نکال کر بائیک چلانا عام ہوگیا ہے یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے "جشن آزادی" منانے کا۔

"دیکھا جائے تو یہ کونسا طریقہ ہے آزادی منانے کا جو ہمارا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے"؟ تو کیا یہ نام روشن کر رہے ہیں ہمارے مسلمان؟ جو اپنے وطن کی آزادی ملنے پر اس کا نام اچھال رہے ہیں۔ ان کو آزادی ملنے کے ہیچھے کی کوشش، لگن، محنت، ہمت، اپنوں کی قربانیاں، جدائیاں اور وہ لاشیں نظر نہیں آتیں جو اس وطن عزیز کی خاطر مسلمانوں نے دیں تھیں۔

کیا ہوگیا ہے آج کل کے مسلمانوں کو؟ جو اس آزادی کو دنیاداری کے لیے شغل اور موج مستی بنا کر اس کو غلط طریقوں سے منا رہے ہیں۔ کیا صرف یہ ہے آزادی؟

ذرا سوچیں ! " ہم اس آزادی اور اس آزاد وطن پاکستان کے ملنے پر کتنا حق ادا کر رہیں ہیں؟

ایسا کیا ہم اپنے وطن کی خاطر کر رہے ہیں جو ہماری دنیا و آخرت کو سنوار سکے؟

کیا ایسے ہم اس وطن عزیز کی حفاظت، محبت اپنی جان سے بڑھ کر کر سکیں؟

 

 ہماری آج کل کی نوجوان نسل اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہے ان کے لیے اسلام کو جاننا، پہچاننا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے ! آپ اپنے وطن کی آزادی کے لیے پر جوش ہیں، خوش ہیں تو اس کو مذہبی طریقے اپنا کر اس نعمت کا شکر ادا کریں۔ نماز، نوافل پڑھیں۔ سب شہداء کے لیے جو اس وطن عزیز کو حاصل کرتے کرتے شہید ہوگئے ان کے لیے فاتحہ پڑھ کر دعائیں کریں۔ مسجدوں میں شکرانے کے نوافل اور دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے گھروں میں جھنڈیوں اور جھنڈوں کو لگا کر آزادی کی خوشی میں خوش ہوں۔ اپنے بچوں کو وطن عزیز کے بارے میں معلومات فراہم کریں تاکہ ہمارے آج کل کے بچوں میں اپنے وطن عزیز کی محبت اجاگر ہو، ان میں ولولہ، جوش و جذبہ ہو کہ وہ اپنے وطن کی حفاظت اور سلامتی کے لیے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کریں۔ "یوم آزادی" ایسا دن ہے کہ اگست کا مہینہ آتے ہی ہر بچے، بڑے، بزرگ، جوان سب کے دلوں میں حیرت انگیز جوش ہوتا ہے، سب کے چہروں پر خوشی کے رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔ ہر طرف خوشی کا سماں بندھا ہوتا ہے اور ہر جگہ جھنڈے، جھنڈیوں سے سبز، سفید پرچم لہرا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی پرجوش خریداری بتاتی ہے کہ ان میں کتنی خوشی اور کتنا ولولہ ہے اپنے آزاد ملک کے لیے۔ آج کے دور میں اسکول، کالج تعلیمی اداروں میں   اپنے وطن سے محبت کے لیے پروگرام منعقد ہونے چاہیے تاکہ ہمارے ہر بچے کو وطن عزیز کی قدر، محبت کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔ ان کو بتایا جائے یہ وطن، یہ آزادی ہمیں کتنی قربانیاں دے کر حاصل ہوئی ہیں اور ہمیں اپنے عزیز وطن کی خود حفاظت کرنی ہے تاکہ ہمارا وطن ہمیشہ سلامت رہے۔ پاکستان ہماری پہچان ہے۔ ہم دنیا میں کسی بھی جگہ، شہر، یا ملک میں چلیں جائیں ہمیں اپنی پہچان کے لیے پاکستان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کی حفاظت کر سکیں۔ کیونکہ یہ ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ پوری ذمہ داری سے اپنے ملک کے فرائض کو پورا کریں اپنے ملک کی حفاظت و اقدامات کر کے اپنے ملک کو دشمنوں سے محفوظ رکھیں۔ آج بھی ایسے باہمت مسلمان موجود ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب تک زندہ رہیں اپنے ملک کی حفاظت کرتے رہیں اس ملک کی خدمت کرتے رہیں اور اس ملک کے کام آتے رہیں اور ایسا جذبہ صرف و صرف ایک سچے مسلمان کے اندر ہوسکتا ہے کہ وہ صرف اسلام کی سر بلندی اور وطن عزیز کی خاطر زندہ رہے۔

 

"دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت

 میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی۔

 

ہمیں ہمیشہ اپنے ملک پاکستان کے لیے سلامتی کی دعائیں کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہمارے ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، دشمنوں کی میلی نظر اور ان کے برے ارادوں سے بچا کے محفوظ رکھے اور ہمیں اس عظیم نعمت کی حقیقی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Post a Comment

Previous Post Next Post