Ik khalish Written By Ifra Khan
Ik khalish Written By Ifra Khan
اک خلش
عفراء خان(لاہور)
راشدہ بی بی صحن میں لگے برگد
کے پیڑ کے سائے میں چارپائی بچھائے بیٹھی تھیں۔اسی اثناء میں انکا بیٹا جاوید انکے
پاس آیا اور کہنے لگا:
"اماں! یہ تو نے شہزادی کو
پھر سے کیا کہہ دیا ہے جو وہ اتنا غصے میں ہے؟ تجھے پتہ بھی ہے کہ وہ ماں بننے والی
ہے، اس کو ٹینشن سے دور رکھنا ہے۔"جاوید نے آتے ہی عدالت لگا دی۔
"پتر! میں نے کیا کہنا ہے،
بس اتنا ہی کہا کہ ایک روٹی ڈال دے توے پر میری طبیعت آج کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔"
راشدہ بی بی نے نقاہت زدہ آواز میں صفائی پیش کی۔
"عجیب بات کرتی ہو، مر تو نہیں
رہی اماں۔۔۔۔۔ایک روٹی اس کے لیے اس بیچاری کو اتنا رلانے کی کیا ضرورت تھی بھلا؟
" جاوید الٹا ماں پر ہی چلانے لگا۔
"معاف کرنا پتر! میں آئندہ
دھیان رکھوں گی کہ تیری بیوی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے مجھ گنہگار سے۔"راشدہ بی
بی نے آنکھوں کی نمی اور اندر اتارتے ہوئے کپکپاتی آواز میں کہا۔
"اچھا بھی یہی ہوگا اماں! ورنہ
میں گھر چھوڑنے میں زرا دیر نہیں لگاؤں گا، میرے لیے میری بیوی کا سکون بہت اہم ہے۔"
جاوید نخوت سے کہتا ہوا اندر کمرے میں چلا گیا جہاں اسکی بیوی مگر مچھ کے آنسو بہانے
میں مصروف تھی۔
راشدہ بی بی کو اللّٰہ نے
ایک بیٹے سے نوازا تھا۔بچپن میں جاوید جب بھی اپنے بڑوں سے بدتمیزی کرتا اور وہ اسے
ڈانٹ دیتے تو راشدہ بی بی الٹا اسی انسان سے لڑنے بیٹھ جاتیں کہ میرے بچے کو ڈانٹا
کیوں ہے؟
لوگوں نے بہت سمجھایا کہ ابھی
چھوٹا ہے تمہیں اچھا لگتا لیکن جب بڑے ہوکر یہ بدتمیزی تمہارے ساتھ کرے گا تو بہت برا
لگے گا لیکن ان کا جواب ہوتا:
" کرنے دیں میرے ساتھ بدتمیزی
مجھے نہیں برا لگتا، بیٹا ہے میرا کوئی غیر نہیں جو اسکی بدتمیزی کا برا مناؤں گی۔"
لیکن آج جب وہ بدتمیزی کرتا تو ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ لیکن کہتے ہیں ناں:
"اب پچھتائے کیا ہو وت۔۔۔۔۔
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔"
****
"جاوید جی! چلیں ناں آج کہیں
باہر کھانے پر چلتے ہیں، بہت دن ہوئے ہم کہیں گئے ہی نہیں۔" شہزادی نے لاڈ سے
اپنے شوہر کے گلے کا ہار بنتے ہوئے فرمائش کی۔
"لیکن شہزادی! اماں گھر پر
اکیلی ہیں اور اوپر سے بخار بھی ہے۔" جاوید نے کچھ پریشانی ظاہر کی۔
"کچھ نہیں ہوتا انہیں، تم ٹینشن
نہ لو اور تیار ہو جاؤ ویسے بھی ہم نے جلدی ہی آجانا ہے۔" بیوی نے بھی چٹکیوں
میں پریشانی اڑائی۔
"اچھا چلو چلتے ہیں۔"
جاوید نے بیوی کو خوش کرتے ہوئے کہا۔
سٹور روم نما چھوٹے سے کمرے
کے اک کونے میں پڑے بوسیدہ سے پلنگ پر راشدہ بی بی بخار سے تپی پڑی تھیں جب جاوید اور
اسکی بیوی نک سک سے تیار ان کے پاس آئے۔
"اماں! ہم زرا باہر ڈنر کرنے
جا رہے ہیں تم کھانا کھا کر سو جانا۔" جاوید نے ماں سے کہا۔
"پر پتر! میرا بخار اترنے کا
نام ہی نہیں لے رہا، میں سوچ رہی تھی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائے گا۔" بوڑھی ماں
نے بمشکل الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ:
"نہیں یہ تمہارا روز روز کا
ڈرامہ ہو گیا ہے، کبھی بخار کبھی بلڈ پریشر اور اب تو نئی بیماری شوگر بھی لگا بیٹھی
ہو، تو کیا اب ہم صرف تمہاری دیکھ بھال کرتے رہیں؟ اپنی کوئی زندگی نہیں ہے ہماری؟
سن لیں جاوید جی اگر یہی حال رہا تو یا اس گھر میں یہ رہیں گی یا میں۔" شہزادی
کو چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنانا اچھے سے آتا تھا، ابھی بھی وہی ہنر آزمایا اور کام
بھی کر گیا۔
"اماں! کتنی مرتبہ کہوں ہمارے
معاملے میں ٹانگ نہ اڑایا کر، اس سے تو اچھا تھا ہم بتانے ہی نہ آتے پڑی رہتی تو یہاں
پر تب کچھ نہیں ہونا تھا۔" جاوید بکتا ہوا اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر چلا گیا اور
پیچھے راشدہ بیگم اس وقت کو سوچتی ہوئی ہی کراہتی رہ گئیں جب جاوید کو انہوں نے اپنے
لاڈ پیار سے بگاڑا تھا۔