Pachtawa Written By Ifra Khan

Pachtawa Written By Ifra Khan

Pachtawa Written By Ifra Khan


پچھتاوا

عفراء خان(لاہور)

جولائی کا حبس زدہ مہینہ؛ ہر طرف گرمی کا زور تھا، نہ ہوا چلتی؛ نہ ابرِ رحمت برسنے کا کوئی امکان نظر آتا تھا، رات کے گیارہ بجے کمرے میں گھپ اندھیرا؛ پنکھا اور اے۔سی بند کیے؛ بند کھڑکی پر سے محض دبیز پردوں کو ہٹانے کی زحمت کی گئی تھی؛ تاکہ چاند کا دیدار ہو سکے، ابتسام اپنی راکنگ چئیر پر بیٹھا ایک کے بعد دوسرا سگریٹ پھونک رہا تھا، چھوٹی سی میز پر راکھدان پڑا؛ تقریباً بھر چکا تھا، کمرے میں ہر طرف دھواں اور حبس بڑھتا جا رہا تھا؛ کمرے کا ماحول اپنے مکین کے وجود میں بڑھتی حبس اور گھٹن کی ترجمانی کر رہا تھا، ابتسام پر یک دم وحشت سی طاری ہونے لگی؛ سانس بند ہوتا محسوس ہونے لگا، جسم پسینے سے شرابور ہوچکا تھا؛ آنکھیں اس قدر سرخ ہو گئیں کہ جیسے ابھی خون چھلکنے لگیں گی، یک دم شیشہ ٹوٹنے کی زور دار آواز کمرے میں گونجی:

"نہیں میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟۔"

وہ کھڑکی کے شیشے پر راکھدان زور سے مارتے ہوئے چلایا، شیشہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا اور سگریٹ کی راکھ کمرے میں اڑ کر خوفناک منظر پیش کر رہی تھی۔

                                  ******

ماضی

"سام! میرے ٹیسٹ کلئیر آئے ہیں، ڈاکٹر کہہ رہی تھی آپ بھی ایک  مرتبہ سارے ٹیسٹ کروا لیں تو۔۔۔۔۔"

زوبیدہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی ہاتھوں پر موئسچرائزر لگا رہی تھی، اس نے آئنے میں ابتسام کو دیکھا، اور ہچکچاتے ہوئے؛ دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔

زوبیدہ اور ابتسام کی پسند کی شادی تھی؛ سات سال ہو چکے تھے؛ لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھے، زوبیدہ نے ابتسام اور اپنی ساس کے کہنے پر سارے ٹیسٹ کروا لیے تھے جن کی رپورٹس کلئیر آئی تھیں، ڈاکٹر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شاید ابتسام میں کوئی کمی ہو۔

"کیا، کیا کہا تم نے زوبی!؟، ایک مرتبہ پھر سے کہنا زرا۔"

ابتسام جو بیڈ پر لیٹا موبائل استعمال کر رہا تھا؛ یک دم اٹھ بیٹھا اور غصے سے پوچھنے لگا۔

"میں نہیں سام!، ڈاکٹر ایسا کہہ رہی۔"

زوبی نے چہرہ اس کی طرف موڑتے ہوئے وضاحت پیش کی، کیونکہ وہ جانتی تھی جس کام کے لیے عورت آرام سے مان جاتی ہے، اسی کو مرد انا کو مسئلہ بناتے ہوئے اپنی توہین سمجھتا ہے، چاہے پھر وہ شوہر محبوب ہی کیوں نہ ہو۔

"اس ڈاکٹر کے پاس آئندہ کے بعد تم نہیں جاؤگی، پاگل ہے وہ، مجھ میں کوئی کمی ہو سکتی ہے بھلا؟، تم خود بانجھ ہو؛ ڈاکٹر کے ساتھ مل کر اپنا نقص چھپانے کے لیے مجھ پر الزام لگانا چاہتی ہو۔"

ابتسام نے اس کے پاس جاکر لمبی چٹیا سے پکڑ کر کھینچا اور زہر اگلتے ہوئے اس کے نرم و ملائم، سفید گال پر تمانچہ رسید کیا، ابتسام کی انگلیوں کے نشان اس کے گال میں پیوست ہو چکے تھے، اور وہ حیران نظروں سے، گہری جھیل سی آنکھوں میں، کرب کا سمندر لیے اسے دیکھ رہی تھی۔

کیا اس نے اتنا بڑا گناہ کر دیا تھا، آخر ٹیسٹ تو اس نے بھی کروائے تھے، اس نے تو کوئی انا کا مسئلہ نہ بنایا، بس ایک مرتبہ کہنے پر ہی ڈاکٹر کے پاس چل دی، کیونکہ اولاد تو اسے بھی چاہیے تھی، اس کا بھی دل کرتا تھا کوئی اسے ماں کہہ کر بلائے۔

"کیا ہوا ابتسام یہ شور کیسا؟۔"

پروین خالہ نے شور کی آواز سن کر اندر آتے ہوئے پوچھا۔

"اماں! یہ بدذات مجھے بتائے گی اب کہ کیا کرنا ہے، مجھے کہہ رہی تم ٹیسٹ کرواؤ؛ کمی تم میں ہوگی۔"

اس نے دوسرے گال پر تھپڑ مارتے ہوئے اسے زمین پر دھکا دیا کہ

جس سے اس کے ماتھے سے خون بہنے لگا۔

"ارے میں تو پہلے ہی اس شادی کے خلاف تھی، تو ہی بضد تھا، اب  دیکھ لیا اس بانجھ کو، میں تو کہتی ہوں ابھی دے اسے طلاق میں ایک ہفتے کے اندر تیری شادی صائمہ سے کرواؤنگی۔"

پروین خالہ کو تو موقع مل گیا تھا، بس جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرنے میں دیر نہ لگائی۔

"صحیح کہہ رہی ہیں اماں آپ، میں تجھے طلق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔"

ابتسام نے ایک ہی سانس میں اسے طلاق دی اور ماں کو دیکھ کر ایسے مسکرایا جیسے میدان مار لیا ہو، ماں نے بھی اسے کندھے پر تھپکی دی جیسے بیٹا جنگ جیت کر آیا ہو۔

زوبی جو حیران بیٹھی تھی پروین خالہ نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور گھر سے باہر دھکیل دیا۔

وہ اپنا درد سے چور، سُن وجود لیے اپنے گھر کی طرف چل دی۔

                                  ****

پروین نے اپنے کہے کے مطابق ایک ہفتے کے اندر ابتسام کی شادی اپنی بہن کی بیٹی؛ صائمہ سے کروادی۔

"ابتسام شادی کو تیسرا سال ہے، ہمارے بچے نہیں، اب تم یا تو ٹیسٹ کرواؤ گے یا مجھے طلاق دوگے۔"

صائمہ نے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے چاول کا چمچ منہ میں رکھتے ہوئے کہا، جس پر ابتسام نے پہلے اسے اور پھر ماں کو دیکھا، جس نے اسے اثبات میں سر ہلا کر مان جانے کا اشارہ کیا، کیونکہ صائمہ جائیداد کی اکلوتی وارث تھی، اور انہوں نے لالچ میں ہی اپنے بیٹے کی شادی اس سے کروائی تھی۔

"ٹھیک ہے ہے سیمی، کل چلتے ہیں۔"

ابتسام کھانا چھوڑ کر کرسی پیچھے دھکیلتے ہوئے چلا گیا، کیونکہ   تین سال میں اسے ہر موقع پر اپنی انا کا قتل کرنا پڑا تھا، اور ایسے موقع پر اسے اپنی محبت شدت سے یاد آتی تھی۔

                                        *****

حال

کچھ ٹوٹنے کی آواز پر پروین بھاگ کر ابتسام کے کمرے کی طرف آئی، اور دروازہ کھول کر اندر آتے ہوئے لائٹ آن کی، جس کی روشنی میں اسے ابتسام اور اس کے کمرے سے خوف محسوس ہونے لگا، انہوں نے اس کے پاس آتے ہوئے پوچھا:

"کیا ہوا میرے بچے؟۔"

"کیوں چھوڑ دیا اماں میں نے اسے؟، میری محبت تھی وہ، میں اس پر الزام لگاتا رہا، جبکہ بانجھ وہ نہیں میں ہوں۔"

ابتسام نے ہفتہ پہلے جب ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ کمی اس میں ہے، جس پر صائمہ تو اسے چھوڑ کر چلی گئی اور آج خلاء کا نوٹس بھیج دیا۔

ابتسام اب زوبی کو چھوڑنے پر پچھتا رہا تھا؛ نہ بیوی ہاتھ آئی نہ بچے؛ لیکن اب  کسی اور کے بچوں کی ماں تھی۔



Post a Comment

Previous Post Next Post