Khawabon Ka Shabastaan Novel By Hira Jaffar

Khawabon Ka Shabastaan Novel By Hira Jaffar

Khawabon Ka Shabastaan Novel By Hira Jaffar

Novel Name : khawabon ka shabastaan
Writer Name: Hira Jaffar
Category : Short Story
Novel status : Complete


خوابوں کی شبستان"

حرا جعفر

"روز روز رکشے میں بیٹھ کے جاتی ہو نا، میں بھی دیکھتا ہوں کیسے جاؤ گی اب۔ تجھے گھر نہ بیٹھا دیا تو میرا نام بدل دینا۔" صحن میں لگی چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے چچا نے ایک دفعہ پھر دھمکایا۔

کمرے کی طرف جاتے پری کے قدم رک گے۔

" تو کون ہوتا ہے مجھے گھر بیٹھانے والا۔ میرے بابا میرے ساتھ ہیں تیرے جیسے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔"  پری ہر بات برداشت کرلیتی لیکن جب بات اُسکے خوابوں پہ آتی تب اُس کا ضبط جواب دے دیتا۔ خاموش رہنا مشکل ہوجاتا۔

ایک تو اتنے پیسے خرچ کررہے تجھ پر ، اوپر سے زبان چلاتی ہے۔ رک ذرا میں بتاتا ہوں تجھے۔ غصے میں ڈھارتا چچا چارپائی سے اُٹھ کر پری کی طرف بھاگا۔

"خبردار! اگر میری بیٹی کو ہاتھ لگایا تو، جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کر۔"

گیٹ کی اوٹ سے داخل ہوتے بابا، بھاگ کر اس جانور سے بیٹی کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ہوں تیری ہی شے پہ یہ اُڑتی ہے۔ آج تجھ سے بھی بات کرلیتا ہوں۔ چچا دو قدم پیچھے ہوا۔

"ہاں کر جو بات کرنی ہے۔ آئندہ میری بیٹی کو ہاتھ لگانے کی کوشش مت کرنا۔"

پری کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اُس کے فرشتہ صفت بابا اُس پر ایک آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔

سیدھی سیدھی اور دو ٹوک بات ہے اب میں اسے مزید تعلیم حاصل کرنے نہیں دوں گا۔

کیوں کیا مسلہ ہے تجھے؟؟؟ بابا نے دو ٹوک بات کرنے کی ٹھان لی۔

اتنا چرچا کرتے ہیں اس پر۔ اس کے ساتھ والیوں کو دیکھو، گھر بیٹھی ہیں۔ اور یہ مہارانی سولہ پاس کرکے رہے گی۔اسے گھر بیٹھاؤ اور اسکی شادی کرو۔

تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے ہاں؟؟ بابا چاچو کی طرف منہ کرتے ہوئے بولے۔

میں؟؟ کون لگا رہا اس پر پیسہ؟؟ ہم ہی لگا رہے ہیں۔جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے یہ تعلیم حاصل کررہی ہے۔ تو ہمارا پیسہ ہی خرچ ہورہا اِس پر۔

کیا میں مرچکا ہوں جو تم لوگ میرے بچوں پہ پیسہ لگا رہے ہو۔ اگر جوائنت فیملی سسٹم ہے تو بزنس بھی جوائنٹ ہی ہے۔ لگی سمجھ۔ زیادہ منہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے برابر  کام کرتے ہیں سب۔

یہ جو سونے کا ہار جیت کر آئے گی پتا ہے سب۔ تم لوگوں کی ناک کٹوائے گی ، تب سمجھ آئے گی چھیدا ٹھیک کہتا تھا۔ ارے آج کل کے حالات نہیں دیکھ رہے کیا تم لوگ؟؟  کیسے لڑکیاں اپنے ماں باپ کی عزت اُچھالتی ہیں کسی دو ٹکے کے لڑکے کے لیے۔ جب تیری بیٹی۔۔۔۔۔۔۔

چھیدےےےے زبان سنبھال کے بات کر ورنہ آج میں تجھے جان سے مار دوں گا۔ بابا کا ہاتھ چچا کے گریبان کی طرف اُٹھا۔

بابا پلیز چھوڑ دیں چچا کو دفع کریں۔

نہیں آج نہیں۔

نہیں بابا پلیز میری خاطر چھوڑ دیں۔پری نے بہت مشکل سے بابا کو پیچھے کیا۔

ہاں مارے گا تو مجھے آ مار نا. مارتا کیوں نہیں؟؟؟؟

پری چھوڑ دو مجھے۔

نہیں بابا پلیز۔

کان کھول کے سن لے چھیدے میری بیٹی پڑھے گی۔ میں بھی دیکھتا ہوں کون روکتا ہے اِسے۔

**********

اس گاؤں میں رواج تھا لڑکیاں میٹرک کے بعد گھرداری کیا کرتی تھیں۔ کسی نے کپڑے سلائی کرنے کا کام شروع کر لیا ، تو کسی نے برتن مانجھنے کا ، کسی نے گول روٹی بنانی سیکھ لی تو کوئی فقط چارپائیاں توڑتی رہی، لیکن آگے تعلیم حاصل کرنے کو معیوب جانا جاتا۔ اگر کوئی غلطی سے آگے بڑھ بھی جاتا تو اُس کے بارے میں ایسے باتیں کی جاتی۔

" ارے تمہیں پتا ہے فلاں کی بیٹی شہر کالج جاتی ہے، پتا نہیں اتنا پڑھ کے کیا کرنا۔ ہم نے تو اپنی بیٹی گھر بیٹھا لی۔ بھیا آج کل دور کہاں پڑھنے کا۔ کل کو بھی تو برتن ہی مانجھنے کیوں نا آج ہی مانجھ لے۔"

یا پھر کسی مامے ، چچا ، یا تایا کے بیٹے سے منگنی کردی جاتی اور جی بس لڑکیوں کی زندگی ختم۔

 شاید اس میں خود لڑکیوں کا قصور تھا۔ کتنے واقعات ایسے رونما ہوئے کہ فلاں نے فلاں سے بھاگ کر شادی کرلی۔ ماں باپ بیچارے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ لڑکیاں خود تو بھاگ جاتیں اور پیچھے رہ جانے والیوں کی زندگی عذاب بن جاتی۔ ہر وقت اُن پر طعنوں کے تیر برسائے جاتے۔ بدکردار ، بے حیا ناجانے کیسے کیسے خطاب دیے جاتے۔ اور سب سے بڑی بات مزید تعلیم کے دروازے بند کردیے جاتے۔

لیکن پری نے یہ بات ٹھان لی تھی کہ میں اس گاؤں کی لڑکیوں کے لیے مثال بنوں گی۔ پری کے راستے میں پتھر پھینکنے والے اسکے اپنے تھے۔

لیکن نہ پری نے ہمت ہاری نہ اُسکے ماں بابا نے۔ پری کے راستے میں بہت مشکلات تھیں لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ آئے روز اس بات پر گھر میں جھگڑا ہوتا۔ لیکن پری نہیں رُکی۔ پری کو اوپر سے خدا کی مدد بھی مل رہی تھی۔ ہر قدم پر جب لگتا اب بس ،اب نہ ہوسکے گا ، تب اُس کے رب کی طرف سے مدد آتی۔ اندھیروں میں روشنی تھمانے والے رب نے کبھی پری کو تنہا نہیں چھوڑا۔

**********

بابا اگر آپ کہتے ہیں تو آج کے بعد میں کالج نہیں جاؤں گی۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

آج اُسکے بابا کو چوٹ لگ سکتی تھی۔ اور یہ بات پری کے لیے ناقابل برداشت تھی کہ اُس کے ماں بابا پر کوئی آنچ آئے۔

نہیں بیٹا تم جاؤ۔ میں ہوں یہ سب سنبھالنے کے لیے، تم فکر نہیں کرو۔بابا نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

بابا میں کبھی آپکا سر جھکنے نہیں دوں گی کبھی نہیں۔ میں اُن لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو محبت کے لیے اپنے ماں بابا کو جیتے جی مار دیتی ہیں۔ بابا میں خود کو اس قابل بناؤں گی کہ لوگ آپ کی تربیت پہ فخر کریں گے۔ بابا میں اپنے خوابوں کی دنیا کو حقیقت کا روپ پہنا کے رہوں گی۔ چاہے کوئی کچھ بھی کرلے لیکن میرے خوابوں کی شبستان نہیں جلا سکتا۔

بابا آپ کی بیٹی آپ کی ہر قربانی کا صلہ لوٹائے گی ان شاءاللہ۔

دل ہی دل میں باپ کو مخاطب کرتی پری کا جذبہ کمال تھا۔

 

**********

Post a Comment

Previous Post Next Post