Kitabcha Ka Waqia Written By Natasha Mariyam

Kitabcha Ka Waqia Written By Natasha Mariyam

Kitabcha Ka Waqia Written By Natasha Mariyam

Novel Name : Kitabcha Ka Waqia
Writer Name: Natasha Mariyam
Category : Short Story
Novel status : Complete


..."کتابچہ کا واقعہ"...

از:"نتاشہ مریم "

 

 

 

ہر جمعہ کو  نماز سے فارغ ہونے کے بعد  مسجد کے امام صاحب اور ان کا ایک گیارہ سالہ بیٹا....

 امسٹرڈم....

کی گلیوں میں نکل پڑتے اور لوگوں کے درمیان

 الطريق إلى الجنة نامی کتابچہ تقسیم کرتے پھرتے.......

یہ معمول چلتا رہا یہاں تک کہ ایک جمعہ کو مطلع ابر آلود ہوگیا موسلا دھار مینہ بہنے لگی اور کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ گئی بچے نے بہت سارے کپڑے زیب تن کر لیے تاکہ اسے سردی کا احساس نہ ہو سکے اور اپنے والد سے گویا ہوا ....."ابا چلیں میں تیار ہوں".....

باپ نے کہا بیٹا کہاں کی تیاری ہے؟........

بیٹے نے جواب دیا.. اباجان کتابچوں کی تقسیم کاری کا وقت ہو چلا ہے

باپ نے کہا.. بیٹا آج موسم‌ کافی ٹھنڈا ہے بارش بھی ہو رہی ہے آج موقوف کرتے ہیں....

یہ سن کر بیٹے نے حیران کر دینے والا جواب دیا ..اور کہا" ابا جان "بہت سارے لوگ تو دوزخ کی طرف بڑھ رہے ہیں....

باپ نے کہا بیٹا اس موسم‌ میں نکلنا ٹھیک نہیں......

بچے نے کہا اچھا ابا جان مجھے اجازت دیں میں اکیلا ہی جاتا ہوں......

باپ نے کچھ تردد کے بعد کہا ....

اچھا ٹھیک ہے احتیاط سے جاؤ.....

گیارہ سال کا یہ بچہ وفور جذبات سے لبریز باپ کو شکریہ کہتے ہوۓ نکل پرا ........

اس عمر کے بچے عموماً لڑکپن کی خرمستیاں لوٹتے ہیں لیکن‌ یہ ننھی سی نوخیز کلی آفاقی ذہنیت کا شاہکار تھا ....

 راستے بھر بھیگتے بھاگتے لوگوں سے ملتا رہا کتابچے تقسیم کرتا رہا قریب دو گھنٹے بارش میں بھیگنے کے بعد اس کے پاس صرف آخری کتابچہ باقی رہا ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن‌ کوئی نظر نہ آیا..... لیکن بارش اور ٹھنڈ کے سبب  شہر خاموشاں میں ہنوز کوئی راہی نہ دیکھا .....

قریب کے ایک چھوٹے سے گھر کی طرف بڑھا سوچا کوئی ہوگا تو آخری کتابچہ اسے دوں

پاس پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن‌ کوئی آواز نہ آئی...

وہ برابر دروازہ کھٹکھٹاتا رہا جانے اس کے دل میں کیا آیا کہ وہ وہاں سے جانے کا نام‌ نہیں لے رہا تھا ...

اور اب کی بار دروازہ قوت کے ساتھ کھٹکھٹایا.......

کچھ لمحے بیت جانے کے بعد ایک عمر رسیدہ خاتون دروازے پہ آئی جس کے چہرے پر حزن و افسردگی کے آثار نمایاں تھے بولی بیٹے کیا کام‌ ہے؟....

ننھا سا بچہ مسکراتے لبوں اور روشن‌ نگاہوں کے ڈورے جھکا کر بولا محترمہ زحمت دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں .....

دراصل آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بے حد پیار کرتا ہے اور اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے یہ آخری کتابچہ آپ کو ہدیہ کرنے آیا ہوں....

یہ کتابچہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے بارے کچھ پیغامات دے گا اور خلق مخلوق کی حقانیت واضح کر دے گا ...

خاتون‌ نے کتابچہ لیا اور شکریہ کہتے ہوۓ واپس اندر گئی بچہ بھی گھر لوٹا.........

اگلے ہفتے جمعہ کا خطبہ ختم‌ ہونے کے بعد وہ بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور پورے مجمع سے مخاطب ہوکر کہا میرا یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے...

اور نہ اس سے پہلے یہاں آنے کا کبھی اتفاق ہوا ہے....

گزشتہ جمعہ کو میں مسلمان نہیں تھی.. اور نہ ہی میں نے کبھی مسلمان ہونے کا خیال دل میں لایا تھا...

کچھ ماہ پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا اور وہ مجھے تن‌ تنہا چھوڑ کر چلا گیا اس کے جانے کے بعد زندگی بوجھل ہو گئی تھی لطف زندگی ناپید ہوگیا تھا....

گزشتہ جمعہ جب زوروں کی بارش ہورہی تھی تو میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ خود کشی کرکے غم زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرلوں کیونکہ مجھے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی

لہٰذا میں نے اوپر کے کمرے جاکر رسی اور کرسی کے سہارے جان دینے کی ٹھان لی تھی بس شاید کچھ لمحات کی دیر ہی تھی کہ یہ جسد خاکی قفس عنصری سے پرواز کر جاتی کہ یکایک میں نے دروازے کی کھڑکھڑاہٹ سنی میں نے کچھ دیر توقف کیا سوچا کہ جو ہوگا کچھ دیر میں خود ہی چلا جائے گا لیکن مسلسل دروازے کی کھڑکھڑاہٹ نے مجھے گلے سے پھندا نکالنے پر مجبور کردیا میں محو سوچ غلطاں و پیچاں رہی کہ آخر کون‌ ہے؟...

جو ایسے پرخطر موسم میں میرے دروازے پہ دستک دے رہا ہے وہ بھی مسلسل بالآخر میں نیچے آگئی دروازہ جو کھولا تو ایک ننھی سی جان کا بھیگتا ہوا وجود میری نگاہوں کے سامنے زیر لب مسکرا رہا تھا اس کی وہ مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں نے کبھی کسی انسان میں نہ دیکھی تھی ....

اس مقدس سراپے کی وصف کشی کے لئے میرے پاس الفاظ بھی نہیں اس کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ گوہر نایاب تھا بس میرے قلب وجگر کی تختیوں پر اس کے الفاظ نقش ہو گئے یوں لگا کہ اب میرے مردہ دل کو کسی نے زندگی کی سوغات عطاء کردیں ...

اس کا یہ کہنا کہ محترمہ میں آپ کو یہ پیغام‌ دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت پیار کرتا ہے اور آپ کا خیال رکھتا ہے پھر اس نے مجھے یہ کتابچہ الـطريق إلى الجنة جو میرے ہاتھ میں ہے دیا...

میں نے دروازہ بند کیا اور نہ چاہتے ہوۓ اس کتاب کو کھولا...

 

پھر جو کتاب کو پڑھنا شروع کیا آنسوؤں سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں ...میرے اندر ایک انقلاب برپا ہو چکا تھا میں جان‌ گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے واقعتاً بہت پیار کرتا ہے میں‌نے کرسی اور پھندا پھینک دیا کیونکہ اب مجھے سہارا مل گیا تھا

اب مجھے زندگی کی قیمت سمجھ میں آچکی تھی

آج میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنے مالک حقیقی کو پہچان‌ لیا

اس کتاب پر دیے گئے پتہ کی وجہ سے میں یہاں پہنچ سکی ہوں میں آپ کا شکریہ کرنے کے لئے یہاں آئی ہوں .....

 میں اس چھوٹے فرشتے کا شکریہ کرنا چاہتی ہوں جو مسیحا بن کر مجھے دوزخ کہ دھانے سے بچا لایا ہے...

مسجد میں چہار جانب سے آنکھیں اشک بار تھیں

تکبیرات کی صداؤں سے پوری مسجد گونج اٹھی

اللہ اکبر الله أكبر

امام‌ صاحب جو اس ننھے فرشتے کے والد تھے منبر سے اتر کر لپک پہلی صف میں موجود اپنے لخت جگر بیٹے سے چمٹ گئے اور زور زور سے رونے لگے

انھیں احساس ہو چلا تھا کہ اس مجمع میں اس جیسا کوئی خوش قسمت باپ نہیں جس کا بیٹا اصلی ہیرے موتی چن رہا ہے

اسے یہ بھی محسوس ہورہا تھا کہ میں نے مجبوری اور عذر بیان‌کیا لیکن‌ اس کے بیٹے کے اندر لوگوں کی ہدایت کے تئیں ایسے جذبات ہیں کہ اب وہ شرم محسوس کررہا ہے

واقعہ تو ختم ہوا البتہ ہمارے لئے اس میں اہم اسباق ہیں

ہر کوئی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ کیا ہم‌ نے کبھی اس طرح لوگوں کو آگ سے بچانے کی کوشش کی ہے؟...

کیا ہمارے سینے میں وہ درد و کسک ہے جو ہمارے پیارے نبیﷺ کو لوگوں کی ہدایت کے لئے تھی یا جو اس ننھے سے بچے کے دل میں تھی؟

کیوں نہ ہم‌ عہد کر لیں کہ جہاں جیسے جب بھی موقع ملے اپنے محدود وسائل کو بروۓ کار لاکر دعوت الیٰ اللّٰه کے فریضے کے ساتھ جڑ جائیں

اللہ تعالیٰ ہم‌ سب کو توفیق عطاء کرے... آمین...

 

 

....ختم شد....

Post a Comment

Previous Post Next Post