Mohabbatein Shoq Dil Complete Novel By Fatima Mehmood
Mohabbatein Shoq Dil Complete Novel By Fatima Mehmood
دعا نے آہستہ آہستہ سے
آنکھیں کھولیں تو سامنے نیم روشنی تھی۔اُس نے اُٹھنا چاہا تو اسے معلوم ہوا کہ اس
کے ہاتھ پاؤں تو کرسی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔وہ خود کو چھڑوانے کی جستجو کرنے لگی
لیکن ناکام۔۔۔وہ یہاں کیسے آئی تھی اسے کچھ یاد نہیں تھا۔آخر دماغی حالت بہتر
ہوئی تو اسے یاد آیا کہ وہ تو شہیرا کے ساتھ تھی پھر اچانک کسی نے اس کے ناک پر
رومال رکھا تو وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی تھی۔
"کھولو مجھے کیوں باندھا ہوا ہے؟"وہ
زور سے چلانے لگی تبھی ایک آدمی دروازے سے اندر آیا اور اس کے پیچھے ہی عاشر بھی
تھا۔اُس آدمی نے کمرے میں لگی لائیٹ چلائی تو اس سامنے کا منظر دیکھنے میں کچھ پل
دشواری ہوئی۔پھر اس نے سامنے دیکھا تو عاشر سامنے کی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے
بیٹھا ہوا تھا۔
"کھولو مجھے کیوں باندھا ہے میں نے کیا
بگاڑا ہے تم لوگوں کا۔"اُس نفاست پسند لڑکی کو گھن محسوس ہو رہی تھی۔
"چلاؤ مت لڑکی ان پیپرز پر سائن کردو اگر
ان پیپرز پر سائن کردیے تو ٹھیک ہے بآسانی تمہیں رہا کریں گے لیکن اگر سائن نہ
کیے تو سائن تو ہم کرواہی لیں گے لیکن پھر تمہیں سزا بھی بھگتنی پڑے گی۔"عاشر
نے اس کے سامنے پیبر کیے تو وہ پھر چلائی۔
"میں یہاں آئی کیسے اور میں تو اپنی دوست
کے ساتھ تھی نا۔"
"تمہاری دوست ہی تمہیں یہاں لائی
ہے۔"عاشر نے لاپرواہی سے کہا وہیں دعا نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
"میں نہیں مانتی۔"
"ٹھیک ہے بات کر کے دیکھ لو۔"عاشر نے
کال ملا کر فون اس کی طرف بڑھایا۔
"ہیلو شہیرا مجھے کسی نے کڈنیپ کرلیا ہے
دیکھو مجھے بچالو۔"
"کڈنیپ کر لیا ہے ارے پھنسانے والے بھی
کبھی بچاتے ہیں کیا؟"شہیرا نے الٹا اسی سے سوال کیا تو دعا کو لگا اس کے اوپر
کوئی پہاڑ گر گیا ہو۔
"شہیرا تم مذاق کر رہی ہو نا یہ لوگ بھی
ایسے ہی کہہ رہے ہیں لیکن تم تو میری دوست ہونا۔"
"ہا ہا ہا مذاق میں نہیں تم دوست لفظ کہہ
کر مذاق کر رہی ہو میں تمہاری کبھی دوست نہیں تھی تم ہمیشہ ہی مجھ سے آگے رہی ہو
امیری میں والدین کے پیار میں محبّت میں اور یہ ضروری نہیں کہ تم ہر بار ہی آگے
رہو۔"اس کی باتوں پر دعا کو لگا گویا پورا آسمان اس پر آن گھرا ہو اور پاؤں
تلے زمین بھی باقی نہ رہی ہو۔اُس کے اندر ہمّت نہ تھی کہ وہ اس کی گھٹیا سوچ سنے
لیکن پھر بھی ایک آخری سوال کر بیٹھی۔
"کیوں کیا تم نے ایسا؟"
"بتایا تو ہے کہ برداشت نہیں تھا تمہارا
آگے نکلنا۔"وہ قہقہہ لگا کر بات مکمل کر گئی۔یہ آخری بات تھی اس کے بعد اس
نے وہی موبائل پورے زور سے دیوار میں مارا۔
"تمہارے باپ کے پیسے کا نہیں تھا۔"اس
آدمی نے اس کے بال زور سے کھینچے تو وہ بےدردی سے بولی۔
"میرے باپ کے پیسوں کیلیے ہی تو تم لوگ
مجھے یہاں لائے ہو اگر اتنے ہی امیر ہوتے تو اتنا گھٹیا کام نہ کرتے۔"
"کرتی ہو یا نہیں سائن؟" عاشر نے
پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ