1st May Labour Day written by Rahat Jabeen

1st May Labour Day written by Rahat Jabeen

1st May Labour Day written by Rahat Jabeen

یکم مئی یوم مزدور  


تحریر راحت جبین  کوئٹہ


پچھلے سال یکم مئی کی چھٹی  کا بچے بے صبری سے انتظار کر رہے تھے. کیونکہ ان سے وعدہ تھا کہ ان کو ایک آؤٹنگ کروائی جائے گی. اور بچوں سے زیادہ ہمیں خوشی تھی کہ چلو ایک دن چھٹی کا تو ملا .ملازمہ کے ساتھ مل کر گھر کے سارے کام نبھٹائے اور تیار ہو کر بچوں کے ساتھ خوشی خوشی روانہ ہوگئے. راستے میں حسب معمول دکانیں کھلی تھیں. اور ٹھیلے والے روز کی طرح اپنے اپنے کاروبار میں لگے ہو ئے تھے. کہیں کہیں کچھ مزدور  معمول کے مطابق کام کی تلاش میں اپنے سامان کے ساتھ بیٹھے نظر آئے. کسی کے پاس بیلچہ تھا تو کسی کے پاس رنگ کرنے والے برش تھے. ان کے چہروں پر امید اور نا امیدی کی کیفیت نمایاں تھی. اس بات سے قطع نظر کہ آ ج ان کی چھٹی ہےاور انہیں گھروں میں آرام کرنا ہے. گاڑی دھیرے دھیرے آ گے بڑھ رہی تھی. یہیں ہماری نظر ایک زیر تعمیر بلڈنگ. پر پڑی وہاں کئی مزدور کام کرتے نظر آ ئے. کچھ آ گے بڑھے تو ایک بوڑھا شخص دکھائی دیا .جو روز کی طرح آ ج بھی دھوپ تلے بیٹھا پرانے جوتوں کی مرمت کر رہا تھا. خیر ایک سر سری سی نظر ڈالنے کے بعد میں پھر بچوں کی جانب متوجہ ہو گئی. کچھ دیر بعد ہم ایک ریستوران کے سامنے کھڑے تھے.یہ شہر کے بہترین ہوٹلوں میں سے ایک تھا. ریستوران کے دروازے پر کھڑے گارڈ بےہمارا پرتپاک استقبال کیا.  اندر داخل ہوئے تو ارد گرد کوئی بھی میز خالی نظر نہ آ ئی. رش دیکھ کر سمجھ آ یا کہ آ ج زیادہ تر لوگ اس چھٹی کے دن کو انجوائے کرنے کے لئےنکلے ہیں .کچھ دیر انتظار کے بعد ایک ٹیبل خالی ہوئی تو بچوں نے جلدی سے نشست سنبھال لی. فورا ہی ویٹر آ یا اور آ رڈر لے کر چلا گیا
کھانے سے فارغ ہو کر واپس گھر کے لئے روانہ ہوئے. راستے میں چھوٹا بیٹا گویا ہوا. کہ مما آ ج کی چھٹی کس لئے دی گئی ہے. میں نے کہا بیٹا آ ج مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے. اور اس دن پوری دنیا میں علامتی طور پر ایک چھٹی دی جاتی ہے. اس دن کو منانے کا اصل مقصد امریکا کے شہر شکاگو میں محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے. پہلے مزدور استحصال کا شکار تھے. ان کو دن بھر میں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا. ان سب نے مطالبہ کیا کہ ان کے اوقات کار میں کمی کر کے آ ٹھ گھنٹے کئے جائیں. ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو یکم مئی کو عالمی طور پر ایک تحریک کا اعلان کیا گیا. اور عالمی سطح پر ایک فیڈ ریشن تشکیل دی گئی. اس کا نام فیڈریشن آ ف آرگنائیزڈ ٹریڈرز ایڈ ڈویلپرز رکھا گیا.  اس فیڈریشن کے ماتحت اپریل 1886میں شکاگو میں اکھٹا ہونے کا فیصلہ کیا گیا.  آ خر کار بہت جدو جہد کے بعد ان کے مطالبات مان لئے گئے. اور ان کے اوقات کار میں کمی کرکے آ ٹھ گھنٹہ کردئے گئے. اور اس دن کی مناسبت سے یہ دن منایا جانے لگا.
 بیٹا خاموشی سے یہ سب سنتا رہا. میری بات ختم ہونے پر بولا. مما ہم سب تو مزدور نہیں ہیں. مزدور تو آ ج بھی روز کی طرح کام میں لگے ہوئے ہیں. ان کو چھٹی کیوں نہیں دی جاتی جن کا یہ دن ہے. اور باقی سب چھٹی کرتے ہیں. ایک معصوم بچے کا یہ ایک ایسا سوال تھا جو کہ میرے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کے منہ پر بھی ایک طمانچہ تھا. اس سوال نے مجھے اندر سے جھنجوڑ ڈالا اور میں اپنا محاسبہ کرنے بیٹھ گئی.
مزدور جن کا یہ دن ہے ہم اسے بڑے جوش و ولولے سے مناتے ہیں. بڑے بڑے جلسے منعقد کرتے ہیں. اور ان مزدوروں کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں. ان کی مجبوریوں اور حقوق کا رونا روتے ہیں اور آ خر میں داد بٹور کر خوش ہوتے ہیں. اور اپنی اپنی چھٹی انجوائے کرکے خوشی خوشی اپنی راہ لیتے ہیں. مگر اصل طبقہ مزدور جن کے لئے یہ سب اہتمام کیا جاتا ہے. وہ معمول کی طرح اپنے کاموں میں مشغول نظر آ تے ہیں.
     وہ نہ چھٹی کرتے ہیں اور نہ ہی کسی جلسے میں جاتے ہیں. اگر جاتے بھی ہیں تو صرف مزدوری کے حساب سے, وہاں کام کرتے ہیں اور جلسے کی تیاریوں میں جتے ہوتے ہیں. اور ہم سب اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ان کے سامنے ان کی بے بسی کے قصے سنا کر داد وصول کرتے ہیں. اور الٹا ان کو بات بے بات ڈانٹتے ہیں. اور وہ اپنی عزت بفس کو مجروح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے دو وقت کی روٹی بھی تو کمانی ہوتی ہے.
مزدور ہمارے معاشرے کا اہم ترین ستون ہونے کے باوجود سب سے کمزور ترین طبقہ ہیں. جن کی زندگی کا واحد مقصد اپنے بیوی بچوں اور اپنے گھر والوں کے لئے دو وقت کی عزت کی روٹی کمانا ہے. مزدور کا جو استحصال 1886میں ہو رہا تھا وہ اب بھی اسی طرح جاری و ساری ہے. ایک یوم مزدور کو ہی لے لیں ان کی چھٹی کا دن ان کے بجائے ہم منا رہے ہوتے ہیں. مانا کہ ہم سب ایک قسم کے مزدور ہی ہیں. مگر جو کوشش اس وقت ہوئی وہ اس مخصوص طبقے کے لئے ہی تھی. مگر آ ج ہم اپنے گھروں سے لے کر گلی کوچوں اورشہروں پر نظر دوڑائیں تو مزدور کا دکھ کم نہیں ہوا ہے. اور سب سے بڑی بات کہ ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کا بھی کوئی دن منایا جاتا ہے. اور یوم مزدور کیا بلا ہے. اس دن کی آ ڑ میں سب اپنے اپنے کام روک دہتے ہیں. اور روز کی دھاڑی پر پلنے والے مزدور اس دن کام نہ ملنے پر مایوس گھر لوٹتے ہیں اور اس دن ان میں سے زیادہ تر کے بیوی بچے بھوکے سوجاتے ہیں .
مزدور طبقے کا جو استحصال جانے انجانے میں ہو رہا ہے اس کو اب روکنا ہوگا. اور ان کے جائز حقوق ان کو دینے ہونگے. اور ان ہی مزدوروں کے ووٹوں سے کامیاب اور منتخب شدہ کابینہ کو اس دن کی مناسبت سے کوئی ایسی قانون سازی کرنی چاہئے. کہ سارے مزدوروں کا گورنمنٹ کی سطح پر اندراج ہو اور یکم مئی کو ان کی بھی چھٹی ہو. اور ان کو کم از کم ایک ماہ کی تنخواہ گورنمنٹ کی طرف سے ملے. تاکہ اس طبقے پر چھائے مایوسی کے بادل کم کئے جا سکیں. اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے بچوں کی مفت تعلیم کو فوقیت ملے.اور ہر سطح پر ان کے لئے الگ اسکالرشپ  ہو.  تاکہ دشمن کے بچوں کے ساتھ ساتھ یمارے ملک کے مزدوروں کے بچے بھی پڑھ لکھ سکیں. اور معاشرے کا اہم رکن بن سکیں. اور اس تاثر کو بالکل ختم کیا جائے کہ مزدور کا بچہ مزدور ہی رہے گا. کیونکہ تعلیم ان کا بھی بنیادی حق ہے



Post a Comment

Previous Post Next Post