Ikhtiyaar Novel by S Merwa Mirza
Ikhtiyaar Novel by S Merwa Mirza
سٹوری لائین:
مان اور ایثار کے سنگ دوستی اور محبت کی اک انوکھی داستان۔ اک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے سب کو سب لوٹا دیا اور اپنی خوشیاں خود کو دینا بھول گئی۔ چھپا عشق جو منفرد رمزوں سے کھل کر اس کی زندگی کو میٹھا کر گیا۔ اسکی عمر بھر کی ریاضت کا ثمر اسکی چھپی محبت کا اس تک پہنچنا تھا۔ یہ ناول بھی محبت، دوستی اور رشتوں کی قدر سے منسلک ہے۔ مینو اور حانی کی دل موہ لیتی کہانی۔
"آ__آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ میں سیکورٹی بلا لوں گی"
اب کی بار وہ اسکی دونوں بازو پکڑے دیوار سے لگا چکا تھا، چہرے پر ایسا کرب تھا کہ
مینو کا دل دہل چکا تھا۔
کتنی ہی دیر وہ مینو کے چہرے پر لکھا خوف دیکھ کر تکلیف اور
جبر کے ہاتھوں اسکی یہ اذیت بڑھاتا رہا۔
"اچھا، بلاو۔کیا کہو گی کہ پلیز مجھے میرے شوہر سے بچائیں۔
بلا ہی لو آج تم جسے دل چاہے، میں بھی دیکھتا ہوں آج میرے اور تمہارے بیچ کون آتا
ہے" حانی کے ہاتھوں اور آنکھوں دونوں میں ہی سختی اور بغاوت تھی، مینو خوفزدہ
ہو چکی تھی۔ دل بھی جیسے اس زبردستی کی قربت پر رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
حانی نے اس بار وصولی اپنی ضد اور شدت کے عین مطابق کی اور
اسکے انداز میں رنج اور کرب کی بھرمار تھی۔
"حانی پلیز آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں" حانی کی انگلیاں
مینو کی بازو میں پیوست ہوتی جارہی تھیں مگر وہ آنکھوں میں اس وقت شدید غصہ لیے
اسے نڈھال ہوتا دیکھ رہا تھا۔
"ہاں اس سے زیادہ دوں گا تکلیف، مجھے بتاو کے آخر تم یہ اذیت ناک کھیل کیوں کھیل
رہی ہو مینو۔ جب تم نے کہا کہ دانیہ سے شادی کر لوں ، میں نے تمہاری سزا قبول کی
اسے اپنایا ، اب تو میری سزا ختم ہو جانی چاہیے" یک دم حانی کی گرفت ڈھیلی
ہوئی اور اسی لمحے وہ اسے ایک بار پھر خود سے دور دھکیل چکی تھی۔
"میں نے جو کہنا ہے وہ ان پیپرز میں لکھا ہوا ہے، مجھے آپکی
زندگی میں نہیں رہنا۔ مجھے آرام سے چھوڑ دیں حانی" اب تو وہ بمشکل خود پر ضبط
کیے اسے برداشت کر پایا تھا، ماتھے پر لاتعداد شکنیں نمودار ہوئیں۔
"میں تمہیں اپنے زندگی سے جانے کی اجازت نہیں دوں گا"
آنکھوں کی سختی قائم تھی، مینو کو لگا جیسے آج اسکا اینڈ ہونے والا ہے۔۔۔۔آج وہ
حانی کے سامنے ہار جائے گی۔
"مجھے آپکی اجازت ملے نہ ملے، میں ہر صورت جاوں گی" وہ اسے پاگل لگ رہی تھی۔
"مینو کیا تمہیں میری تکلیف کا زرا احساس نہیں؟ " کیسی
حسرت تھی حانی کے چہرے پر اور وہ تو بے دردی سے رخ پھیر کر اسکی تکلیف کسی صورت کم
نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"مجھے کچھ نہیں کہنا، پلیز چلے جائیں" وہ شاید بے بسی
کے آخری نقطے پر تھی۔
"پر مجھے تو کہنا ہے، سننا بھی ہے۔مجھے یہ احساس دو کہ ہم
دونوں ایک دوسرے کی محبت ہیں" اسکا رخ اپنی جانب کیے وہ اسکا چہرہ پکڑتا اسکی
گالوں پر لاتعداد سے محبت و شدت کے مظاہرے کرتا ہوا بہت بے حال ہوا تھا، مینو رو دینا
چاہتی تھی۔
"نہیں دور ہٹیں پلیز میرے قریب مت آئیں، چلے جائیں یہاں
سے" حانی کی بھٹکتی من مانی پر تکلیف میں لپٹی ہوئی التجاء آئی تھی۔
"نہیں آج میں نہیں جاوں گا، یہ رہا صوفہ اور یہ اس پر بیٹھا
حنوط مرتضی " حانی باقاعدہ غصہ دلا کر صوفے پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ چکا تھا مینو نے ایک کھا جانے والی نظر حانی پر ڈالی۔
"پلیز حانی چلے جائیں" جب وہ حانی کی التجاء نہیں سن رہی
تھی تو وہ کیسے سن لیتا۔
"مینو بند کردو یہ چلے جانے کی رٹ، یہاں آو" اپنا ہاتھ
بڑھائے اب وہ اسے پاس بلا رہا تھا اور وہ ناجانے کس طرح اپنا غصہ ضبط کیے وہیں بیڈ
پر بیٹھ گئی۔ حانی کی نظریں، حانی سے کہیں زیادہ نڈھال کر رہی تھیں۔