Dosri Mohabbat By Noreen Malik

Dosri Mohabbat By Noreen Malik

Dosri Mohabbat By Noreen Malik

Novel Name : Dosri Mohabbat
Writer Name : Noreen Malik 
Category : ROMANTIC NOVELS,
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
 Dosri Mohabbat By Noreen Malik is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

دوسری محبت

وہ میری دوسری محبت تھی۔شہزادیوں جیسا حسن لیے

بے شمار خوبیوں کا شاہکار

پہلی ہی نظر میں مقابل کو مائل کرنے کا کمال رکھتی تھی۔

کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو اسے پالے اور

اس کی قدر نہ کر سکے

ہاں میں وہ بدنصیب ہوں۔

جس نے اسے پا کر بھی کھو دیا۔

کیونکہ وہ میری دوسری محبت تھی۔

جانتے ہو نا کہ دوسری محبت کا کیا مقام ہوتا؟

وہ کبھی بھی پہلی محبت کی جگہ نہیں لے سکتی۔

یا ہم اسے کبھی وہ رتبہ دینا بھی نہیں چاہتے۔

نور بھی میری دوسری محبت تھی۔

اس سے میری پہلی ملاقات ایک دوست کی شادی پر ہوئی۔

تھوڑی بات چیت کے بعد پتہ چلا کہ آجکل وہ نوکری کی تلاش میں ہے۔

میں نے اسے اپنے آفس کا کارڈ تھما دیا۔

کافی دن گزر گۓ اور میں بھول گیا کہ میری کسی سے ملاقات ہوئی تھی کہ اچانک ایک دن اسکی کال آگئ۔

میں نے انٹرویو کے لیے آفس بلالیا۔

وہ کمال کا حسن رکھنے کے ساتھ ساتھ بلا کی ذہین تھی۔

آفس میں ہر کسی سے اخلاق سے ملتی۔

ہر کوئی اسکے گرویدہ تھا۔

نور کے بات کرنے کا انداز الوینا سے ملتا تھا۔میں نہ چاہتے ہوۓ بھی بات طویل کر دیتا۔

اسکی آنکھوں میں دھنک رنگ سما جاتے جب جب میں اسے پکارتا۔

پر میں اسے آگے بڑھنا نہیں دینا چاہتا تھا۔

الوینا کی جگہ کوئی اور آجاۓ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

الوینا میری پہلی محبت ، میرے دل کی ملکہ

عام سا حسن لیے بھی

آج تک دل پہ راج کررہی تھی۔

میرے پر لاکھوں لڑکیاں مر مٹتی تھیں اور میں اس پر مر مٹا تھا۔

اسکی مسکراہٹ دیکھنے کو لاکھ جتن کرتا۔

گھنٹوں اسکی کال کا انتظار کرتا۔

مہنگے مہنگے تحائف دیتا۔

کیا تھا جو نہیں کیا اس کے لیے

پر وہ کسی اور کےلیے مجھے چھوڑ گئی۔

میری خوشیاں، میرا سکون سب لے گئی۔

نور کے آنے سے میں کچھ دیر کو جینے لگتا تھا میں۔

نور بھی مجھ سے محبت کرنے لگی۔

بہت کوششوں سے اس نے مجھے منایا۔

شادی کی رات اسے منہ دکھائی کا تحفہ دیتے ہوۓ میری زبان پھسل گئ۔

میں نے بول دیا کہ یہ گفٹ میں نے خود الوینا کے ساتھ لے جا کر خریدا تھا۔

نور کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا۔

وقت گزرتا گیا۔اس نے محبت اور خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

ایسی بیوی کو پا کر کوئی بھی رشک کر سکتا تھا۔

مگر میں اس کے لباس ، چلنے پھرنے اور بولنے میں الوینا کو تلاش کرتا رہا۔

اسے ویسے کپڑے لا کر دیتا جو الوینا کو پسند تھے۔

اسی کے پسندیدہ ریستوران میں نور کو لے کر جاتا۔

حتی کہ کھانا بھی اسی کی پسند کا آرڈر کرتا۔

اور نور بچوں کی طرح ایک ایک چیز میرے آگے رکھتی۔

آفس سے آتے ہوۓ مجھے گیٹ پہ ملتی۔

بیگ اٹھاتی ، کوٹ اتارتی۔

جوتے اور موزے تک اتارتی۔

میں منع کرتا پر ٹال دیتی کہ آپ میرے شوہر ہیں۔میں نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا۔

نور کو شوخ رنگ پسند تھے اور مجھے رنگ برنگے کپڑوں سے نفرت تھی

اس نے پہننا ہی چھوڑ دیے

مجھے الوینا جیسی سنجیدہ لڑکی بھاتی تھی۔

نور نے کب بولناہی چھوڑ دیا مجھے احساس تک نہ ہوا۔

 

رات جب میرے پہلو میں اور انتظار کرتی کہ میں اسکی تشنگی دور کروں

ایسے میں بے خیالی میں اسے الوینا سے محبت کے قصے سنانے لگتا۔

مجھے اسکی آنکھوں کی ویرانی نظر آتی نہ دل کی بے چینی۔

میں بے حسی کا بت تھا اور وہ صبر کی مورتی۔

اس دن ہم اپنی شادی کی چوتھی سالگرہ منا کر واپس آرہے تھے کہ اچانک نور کی طبیعت بگڑ گئی۔

میں اک قریبی ہسپتال لے گیا۔ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے۔

اگلے دن رپورٹس لینے گیا تو پتہ چلا کہ کینسر کی آخری سٹیج ہے۔

میرے سر پہ جیسے آسمان گر پڑا ہو۔

میں نے نور سے چپھایا ورنہ وہ پریشان ہوجاتی۔

میں نے اسکی خدمت میں دن رات ایک کر دیا۔

پر وہ بھی چھوڑ گئی مجھے۔

اب قدر ہوئی کہ وہ کیا تھی میرے لیے۔

سوچتا ہوں کہ روپیا ، پیسا ہونے کے باوجود کونسا روگ اسے دن بدن موت کی جانب لے جارہا تھا۔

اب سمجھ آئی کہ اسے میری پہلی محبت ڈس گئی۔

اس نے میرے لیے خود کو مٹی کر لیا اور منوں مٹی تلے جا سوئی۔

اس کا واحد قصور میری دوسری محبت ہونا تھا۔

پر میں تو اس کی پہلی محبت تھا۔

کتنی زیادتی کر بیٹھا میں۔

ایک انسانی جان کی قدر ہی نہ کر سکا۔

آج اس کی شدت سے یاد آئی تو اس کی چیزوں کو کھول کر دیکھنے لگا۔ایک فائل اور ڈائری بھی ہاتھ لگی۔

فائل میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔

میجھے سکتہ ہو گیا کہ وہ مجھ سے چھپاتی رہی کہ اعتبار نہیں تھا کیا۔

خود درد سہتی رہی اور میرے سامنے مسکراتی رہی۔

میں جو سمجھتا تھا کہ اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا

ڈائر ی پڑھ کر لگا کہ وہ طوفان کی مااند جذبات رکھتی تھی۔کتنے ارمان تھے اسکے جو میری بے حسی کی نظر ہوگۓ۔

ہم جیسے لوگ پہلی محبت کے نہ ملنے کی سزا دوسری محبت کو دیتے ہیں۔

ایک کا بدلہ دوسرے سے لیتے ہیں۔

کتنے ظالم اور اور بے حس ہوتے ہیں کہ انسان کے اصل مقام کا تعین ہی نہیں کر پاتے۔نادان اتنے کہ ایک کی پرچھائی دوسرے میں ڈھونڈتے ہیں

جب کہ اللہ نے ہر کسی کی الگ جگہ اور مقام بنایا ہے۔

اپنے جزبات کی خاطر دوسروں کی خواہشات کو روند دیتے ہیں۔

یوں ایک ہنستے بستے انسان کو اجاڑ دیتے ہیں۔

کاش ہمیں دوسروں کی محبت کی قدر ان کی زندگی میں ہی آجاۓ۔

آج وہ زندہ ہوتی تو پاؤں پکڑ کر معافی مانگتا ۔پر وہ مجھے پچھتاوے کی قید دے گئی۔

میں نے اسکی ذات ختم کردی۔

ہم جیسوں کو دوسری محبت کونے کا حق ہی نہیں ملنا چاہیے۔

یا پہلی محبت کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے۔

ہاں واقعی ہی مر جانا چاہیے۔۔۔۔۔۔

 

از قلم

نورین ملک



1 Comments

  1. Plzzz new novel's jaldi upload kry na aur intazar nhi ho rha Plzzz Plzzz Plzzz upcoming novel's jaldi se upload kry

    ReplyDelete
Previous Post Next Post