Chirya Ghar Walay Janwar Written By Lal Dino Shanbani

Chirya Ghar Walay Janwar Written By Lal Dino Shanbani

Chirya Ghar Walay Janwar Written By Lal Dino Shanbani

*چڑیا گھر والے جانور*

تحریر: لعل ڈنو شنبابی

 

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سے مسائل ہیں جن سے انسانوں کا سامنا ہے غور کیا جائے تو ان مسائل کی وجہ بھی خود انسان ہی ہے۔انسانی مسائل میں الجھے ہوئے اس معاشرے میں کم لوگوں کی نظر جانوروں پر پڑتی ہے۔

آزاد اور نظربند جانوروں کو بھی بہت سی مسائل کا سامنا ہے۔ جنگلات بالکل نام کے رہ گئے ہیں جنگلات کی کٹائی کے باعث جانوروں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان کے مسکن جہاں پر وہ اپنی آزادانہ زندگی گزار سکتے تھے وہ تباہ ہوگئیں،جنگل میں موجود حلال جانوروں کا تو شکاریوں نے بھی کافی حد تک نسل کشی کر رکھی ہے۔

دوسری طرف چڑیا گھر میں موجود قید و  نظر بند جانوروں کی حالت دیکھ کر رونا ہی آتا ہے اور چڑیا گھر کے باہر موجود ان جانوروں پر شدید غصہ بھی آتا ہے کہ وہ جانور نما انسان ان بے زبان جانوروں کا حق تک کیسے کھا جاتے ہیں۔ ہر دوسرے روز ٹی وی اور اخبار میں ملک کے کسی نہ کسی چڑیا گھر سے جانور کے موت کی خبر آتی ہے لیکن کوئی ان بے چارے اور بے زبان جانوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والا نہیں،تحقیق سے اکثر جانوروں کے مرنے کی وجہ بھوک ہی معلوم ہوتا ہے۔

کاغذات میں نظر پھیلانے سے معلوم ہوتا ہے ہر چڑیا گھر کے نام سے ہر ماہ ایک مخصوس بجٹ جاری ہوتا ہے ،چڑیا گھر کے ملازموں کی سرکاری تنخواہیں بھی ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ چڑیا گھر دیکھنے والوں کے ٹکٹ یا ٹوکن کے پیسے الگ سے۔ لیکن پھر بھی یہ بے زبان بھوک سے مر رہے ہیں۔

ہم تو ان کی زبان سے واقف نہیں ہیں اگر ان کی زبانیں ہمیں سمجھ میں آرہیں ہوتیں تو یقیناً ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا۔ یہ ضرور ہم سے سوال کرتے کہ کیسے انسان ہو؟ کیسے مسلمان ہو؟ کہ تم لوگوں نے ہمیں اپنے لطف اور مزے کے لیے ہمیں قید کر رکھا ہے اور تمہاری اوقات یہ ہے کہ تم ہمیں پیٹ بھر کا کھلانا کھلا نہیں سکتے۔ہم انسان ان کی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں پر خدا کی قسم فتح پور کے چڑیا گھر میں موجود بندر اپنی اداس اور غمگین آنکھوں سے بتا رہا تھا کہ اے انسانو! اے مسلمانو! میں کتنا مجبور ہوں، میں کتنا مظلوم ہوں میں وہ بندر ہوں جو بڑا شرارتی اور ہنسنے ہنسانے والا ہوتا ہوں مگر آج تم نے مجھے قید کر رکھا ہے، میں آج صرف بھوکا ہوں میں پیاسا ہوں۔جب ٹھنڈ چلی جاتی ہے تم ادھر گھومنے آتے ہو مگر میں اس ٹھنڈ میں بھی اسی قید خانے کے ایک کونے میں پڑا رہتا ہوں۔

ہماری حکومتوں کو اور ہمیں چاہیے کہ جانوروں کے حقوق پر توجہ دیں ،خاص طور پر ان جانوروں کو توجہ کی ضرورت ہے جو چڑیا گھروں میں نظربند اور قید ہیں۔ہم قیامت کے دن ان کے حقوق کے لیے بھی جوابدہ ہیں لہذا ہمیں اس معاملے میں  غفلت کے بجائے غور و فکر کرنی چاہیے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post