Sukoon Kiya Hai Written By Ayesha Khan

Sukoon Kiya Hai Written By Ayesha Khan

Sukoon Kiya Hai Written By Ayesha Khan

"سکون کیا ہے؟"

یوں ہی پلنگ کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں موندے اس کے ذہن میں اجالا سے کی ہوئی گفتگو یاد آرہی تھی۔اس وقت وہ دونوں کیمپس کے لان میں بیٹھی ہوئی تھیں۔جب حیاء نے نوٹ بک پر جھکی,لکھنے میں مصروف اجالا سے مخاطب ہو کر پوچھا۔حیاء کے پوچھنے پر نوٹ بک سے سر اٹھا کر اجالا نے ان کی جانب دیکھا,پھر نوٹ بک بند کر کے ایک سائیڈ پر رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہو کر بتانے لگی۔ "کسی ضرورت مند کی مدد کر کے، کسی کی الجھنوں کو سلجھا کر راستہ دکھا کر،روتے ہوئے چہرے پر ہنسی کی کرنیں بکھیر کر جو خوشی ہوتی ہے, شاید انہیں سکون کہتے ہیں۔" اجالا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔"اجالا!جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور اس کے باوجود وہ اپنی ضروریات کو پورا نہ کر سکیں,وہ دوسروں کی مدد کیسے کریں گے؟"حیاء نے سوال کیا۔" ضروری نہیں ہے کہ ہمارے پاس صرف پیسہ ہو تو ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ کبھی کسی کو مشکل حالات میں ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ساتھی کی جس سے اپنی پریشانیاں شیئر کر کے وہ ہلکا محسوس کریں۔ ساتھی جو انہیں مشکلات سے لڑنے کی ہمت دے۔ انہیں تاریکی میں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔"اجالا نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ یہ صرف کتابیں باتیں ہیں۔" حقیقی زندگی میں پیسوں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔"حیاء نے ان کی بات سے اختلاف کیا۔"آج کے زمانے میں پیسے کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پیسے سے بہت سی چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔بہت سے مسائل ہوتے ہیں جنہیں صرف پیسہ حل کر سکتا ہے, لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو پیسوں سے بھی نہیں خریدی جا سکتی۔۔۔کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جنہیں پیسہ بھی نہیں حل کر سکتا۔" وہ پورے دھیان سے اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے سن رہی تھی۔"میں نے دیکھا ہے ایسے بڑے لوگوں کو جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔وہ سب کچھ خرید سکتے ہیں لیکن اپنے لیے زندگی نہیں خرید سکتے۔کچھ لوگوں کی زندگی میں سب کچھ ہوتا ہے۔ہر آسائش ایک سے بڑھ کر ایک سہولت لیکن وہ خوش نہیں ہوتے۔کوئی نا کوئی کمی ایسی ضرور ہوتی ہے جو انہیں خوش نہیں رہنے دیتی۔پیسے سے وہ اپنے لیے خوشیاں نہیں خرید سکتے۔"حیاء ان کی بات سن کر خاموش ہو گئی تھی۔"میں دعا کروں گی کہ آپ کو زندگی میں بہت ساری دولت ملے۔"اسے خاموش دیکھ کر وہ کچھ دیر بعد اس سے گویا ہوئی۔"اگر ایسا ہوا تو میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھوں گی۔"حیاء اس کی بات پر کھل اٹھی تھی۔ان دونوں کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔بہترین دوست ہونے کے باوجود ان کی سوچوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ پتا ہے؟ "ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ہماری جیسی زندگی گزارنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔اگر ہم اپنی آس پاس کی دنیا پہ نظر ڈالے اور دیکھے تو ایسے بہت سے لوگ ہیں جن سے ہمارے حالات بہت بہتر ہیں۔ہم انسان کیا کرتے ہیں رب کی دی ہوئی ساری نعمتوں کو نظر انداز کر کے صرف ان چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں نہیں ملی۔جو نعمتیں اللّٰہ نے دی ہیں اگر ہم ان پہ شکر ادا کرے تو جو چیزیں ہمارے پاس نہیں بھی ہیں۔ہمارے دل سے اس چیز کی آرزو ختم ہو جائے گی۔" کسی فلم کی مانند اس کے ذہن میں اجالا سے کی ہوئی گفتگو چل رہی تھی۔کبھی کبھی ہماری زندگی میں سب کچھ ہونے کے باوجود سکون نہیں ہوتا۔جیسی زندگی گزارنے کی ان کی خواہش تھی, جیسا مستقبل انہیں چاہیے تھا ویسا ہی انہیں مل گیا تھا۔زندگی کی ہر آسائش اس کو میسر تھی لیکن وہ اپنی زندگی میں خوش نہیں تھی۔پھر بھی اس کی زندگی میں سکون نہیں تھا۔انہیں اب اور چاہیے تھا اور زیادہ کی خواہش انسان کو حاصل کا لطف بھی نہیں لینے دیتی۔اس نے فہد سے الگ گھر کی فرمائش کی تھی جس پر انہوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔انہیں لگتا اب یہ گھر ان کے لئے کافی نہیں ہے اور فہد اس بات پر راضی نہیں تھا کہ وہ ماں' باپ سے علیحدہ ہو جائے۔حیاء بھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہی تھی۔دونوں میں خوب بحث ہوتی رہی اور پھر حیاء ناراض ہو کر بچوں سمیت میکے چلی گئی۔ان کا خیال تھا کہ فہد زیادہ عرصہ بچوں سے دور نہیں رہ سکے گا اور جلد ہی ان کے الگ گھر کی فرمائش پر رضا مند ہو جائے گا مگر ان کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا جب کافی عرصہ سے فہد نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔وہ اب پریشان رہنے لگی تھی۔کئی بار اس کا دل چاہا کہ خود ان سے رابطے کر لیں مگر فہد کا رویہ ان کی باتیں یاد آتی تو ارادہ ترک کر لیتی۔اجالا نے کئی بار انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔آج بھی انہیں سمجھا رہی تھی۔لیکن اس پر تو جیسے اس کے سمجھانے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔"ایسا کیا کر دیا میں نے؟" وہ الٹا اس سے سوال کر رہی تھی۔"حیاء! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم کیا کرنے جا رہی ہو؟جس گھر میں تم رہ رہی ہو لوگ دیکھ کے رشک کرتے ہیں تمہاری قسمت پر۔مجھے دیکھو, تین کمروں کے مکان میں رہ رہی ہوں آرام و سکون سے۔کہتے ہیں نا کہ دل بڑا ہو تو جگہ تنگ نہیں لگتی۔حیاء! اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے چھوڑو یہ فضول کی فرمائش اور زندگی کو جینا سیکھو۔جو ملا ہے ان سے لطف اٹھاؤ۔" اس کے لہجے میں اصرار تھا۔"مجھے واپس جانا چاہیے؟" بار بار اس کے ذہن میں یہ سوال آرہا تھا۔پھر آخر کار اپنی انا کو بھول کر اس نے فون اٹھایا اور فہد کا نمبر ڈائل کیا۔نجانے کتنی دیر وہ یونہی فون ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی' لاکھ چاہنے کے باوجود وہ ہمت نہیں کر پائی اور فون واپس رکھ دیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ان کے دل سے دوسرے گھر کی خواہش بھی ختم ہونے لگی تھی۔اسے اب اپنے لیے فکر ہونے لگی تھی۔وہ اب فہد کے آنے اس کے کال کی منتظر تھی۔کبھی کبھی نجانے ہمارا کونسا عمل کونسی نیکی کام آتی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہونے لگتا ہے۔حیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔فہد اسے خود لینے آیا تھا۔ان کی الگ گھر کی فرمائش پر بھی رضامند ہو گیا تھا۔مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ان کی سوچ بدل گئی تھی۔انہیں اپنی غلط فیصلے کا احساس ہو گیا تھا۔حیا کو خوشی تھی کہ انہیں غلطی  کا احساس دلانے والی دوست تھی۔ وقت اور ہمارے غلط فیصلے ہمیں بہت کچھ سکھا دیتے ہیں اور حیاء اتنا عرصہ فہد سے دور رہ کر یہ بات جان گئی تھی کہ سکون تو محبت سے اپنوں کے ساتھ رہنے میں ہے۔

(افسانہ)

عائشہ خان


2 Comments

Previous Post Next Post