23 March written By Fatima Sarwar

23 March written By Fatima Sarwar

23 March written By Fatima Sarwar

افسانہ: 23 مارچ

فاطمہ سرور (صوابی)


"کشف بیٹا! آج دیر سے کیوں اٹھی ہیں آپ؟؟ طبیت ٹھیک ہے ناں۔۔۔کہیں چھٹی کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے؟؟" دادی جان اپنے تخت پر بیٹھی چھ سالہ کشف جو کے ابھی ابھی سو کے اٹھی سے مخاطب تھیں۔

"امو جان! آج ہماری چھٹی ہے۔" کشف خوشی سے جھومتی ہوئی امو جان کی گود میں سر رکھ کر کہنے لگی۔

"ہائے! کس خوشی میں تم لوگوں کو چھٹی ملی؟؟ نہ ہفتہ نہ اتوار مفت میں چھٹی؟؟؟* امو جان ابھی تک حیران تھی۔

"اوہو! آپ پھر بھول گئیں۔ کہا تو تھا کل آپ سے کے یوم پاکستان کی چھٹی ہوگی۔۔۔" چھ سالہ کشف نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا۔

"ارے دیکھو! کل ہی تو بتایا تھا۔" امو جان کشف کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔

پھر کچھ یاد آنے پر کشف پھر سے امو جان سے مخاطب ہوئی۔ "دادوو! (پیار سے بلاتے ہوئے) یوم پاکستان کا کیا مطلب ہوا بھلا؟؟"

"بیٹا! پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کی سرزمین اور یوم پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کی سرزمین کا دن۔" امو جان نے کشف کو پیار کرتے ہوئے سمجھایا۔ مگر وہ چھ سالہ بچی اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔

"واؤ! مطلب ہم پاک لوگ ہیں دادوو۔۔۔۔۔"

"جی دادوو کی جان ہم مسلمان ہیں اور ہم پاک ہیں۔ ہر قسم کی عداوت اور برے عمل سے۔ کیونکہ ہمارا دین اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں پاک صاف رہنے کا درس دیتا ہے۔ چاہے وہ اندرونی صفائی ہو یا بیرونی۔"

"پھر بھی دادو! یوم پاکستان کو کیا ہوا تھا؟؟ کیون اس دن ہم چھٹی مناتے ہیں؟؟" کشف کے معصومانہ سوالات اور امو جان کی مسکراہٹیں دونوں ساتھ ساتھ چل رہیں تھیں۔

"23 مارچ ہماری تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اپنے اجداد کی قربانیاں یاد دلانا ہیں۔ اس پاک سرزمین کو انہوں نے کتنی مشکلوں سے حاصل کیا تھا۔ یہ دن یاد دلاتی ہے ان قربانیوں کو جنہیں ہم دیکھ نہ سکے کیونکہ ہمیں تو یہ ملک تالی میں پیش کر کے ملا ہے۔"

کشف اب بیٹھ گئی تھی ساتھ ہی گہری سوچ میں مگن بھی تھی۔ امو جان نے بات کو مزید طول دیتے ہوئے کہا کہ "اس دن قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔"

"قرارداد کیا ہوتا ہے دادوو؟؟؟" ایک اور معصومانہ سوال کشف کی طرف سے آیا۔

"قرار داد کا مطلب ہے عہد و پیماں یا دوسرے لفظوں میں تجویز دینا یا مطالبات پیش کرنا۔ چونکہ اس دن یعنی 23 مارچ 1940 کو قرارداد منظور ہوئی تھی۔۔۔۔۔" امو جان نے بات روک کر کشف سے پوچھا۔۔۔۔"پاکستان کب بنا تھا؟؟؟"

کشف نے سوچنے والا انداز بناتے ہوئے بتایا۔۔۔۔۔"14 اگست 1947 کو دادوووووو۔۔۔۔" رٹا رٹایا جملہ دہرایا۔

"شاباش! میرا لائق بچہ۔۔۔۔ "تو دراصل پاکستان بنانے کے لیے جو تجویز پیش کی گئی تھی وہ 23 مارچ کو پیش کی گئی اور ہمارے عظیم قومی شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جو آلہ آباد میں 1930 کو پاکستان بننے کا تصور پیش کیا تھا ان کی وفات کے تقریبا دو سال بعد ایک دوسرے عظیم رہنما نے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کا اجلاس پیش بلایا۔ جس میں قرارداد  منظور ہوئی، اس کو قرارداد پاکستان یا قرارداد لاہور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ قرارداد لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں منظور ہوئی اور پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں یہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ شیر بنگا ابو القاسم مولوی عبدالحق نے یہ قرار داد پیش کی۔ اس کے بعد چوہدری خلیق الزمان نے سب سے پہلے ان کہ حمایت کی۔ اس کے بعد دیگر رہنماوں نے حمایت کاور اس طرح قرارداد پاکسان کے بعد قیام پاکستان کے لیے جدوجہد شروع ہوئی جو کہ 14 اگست 1947 کو برصغیر میں مسلمانوں کی الگ اسلامی مملکت "پاکستان" وجود میں آئی۔"

"واؤ دادو! کتنا مزہ آیا۔ مزید بھی کچھ بتائیں ناں پلیززززز!!!" کشف مزید سسنے کے لیے بے تاب ہوئی۔

"اچھا تو مزید جانا ہے۔۔۔" دادوو نے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔

"تو سنو! قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ تقاریر کے بعد مسلامنوں کے لیے الگ وطن قرارداد منظور ہوئی اور بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں پہلی بار اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔"

"ویسے امو جان! اس قرارداد میں کہا کیا گیا تھا۔ اس کے الفاظ کیا تھے؟؟" کشف نے پر سوچ لہجے میں پوچھا۔

"ماشاء اللہ اب کیا ناں مزے دار سوال۔۔۔"دادوو نے اسے ساتھ لگایا۔

"قرارداد میں کہا گیا تھا کہ 'ہندوستان موجودہ انڈیا کے وہ علاقے جو مسلم اکثریتی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے ہیں ان کی حد بندی ایاے کی جائے کہ وہ خود مختار آزاد ریاستوں کی شکل اختیار کر لیں۔' اب آئی سمجھ کشف بیٹے؟؟" دادو نے اس سے جواب طلب کرنا چاہا۔

"جی دادوو! بہت اچھے سے سمجھ آیا اور آج ہم انہی لوگوں اور قرارداد پاکستان کی وجہ سے آزاد ہیں۔ اپنا ملک پاکستان حاصل کر لیا ہے۔ ہم آزاد ہیں میں آزاد ہوں۔ الحمد اللہ۔۔۔" کشف اب پورے ہال میں جھوم جھوم کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہی تھی۔

"کتنا اچھا ہوتا کے پاکستان کا ہر شہری کشف کی طرح خوش ہو کر اپنے ملک وہ قوم کی حفاظت کرے اور خود کو آزاد تصور کرسکے۔۔۔۔" امو جان نے اپنی پوتی کو خوشی سے جھومتے دیکھ کر دل میں سوچا۔

مگر کاش

کوئی اس ملک کی قدر جان سکے۔ کوئی اقبال کا شاہین اور قائد کا جوان ابھر کر آئے۔ کوئی محمد مصطفیﷺ کا سچا امتی مدنی ریاست قائم کرے اور ملک کی حفاظت کر سکے۔

مگر کاش۔۔۔۔۔!

کوئی نہیں ہے اور جو ہیں، تو ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ دعا ہے کے اللہ ہمارے وطن کو آباد و سلامت رکھے آمین ثم آمین!


جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے


پاکستان زندہ باد🇵🇰

پاکستان پائندہ باد 🇵🇰


Post a Comment

Previous Post Next Post