Bikhre Rishte Romantic Novel By Palwasha Safi
Bikhre Rishte Romantic Novel By Palwasha Safi
اچانک سے اس کالے سایے سے
وہ اس قدر خوفزدہ ہوگئی کہ یک دم بھاگنے پر اسے نہ اپنے پیچے ہارن سنائی دیئے نہ گاڑیوں
کے آپس میں ٹکرانے کی پروا کی اور نہ خود کا ایکسیڈنٹ ہونے کی پریشانی ہوئی۔ بچتے بچاتے
وہ سڑک پار کر کے دوسرے جانب پہنچی۔ بغیر مڑے وہ سہمے انداز میں اپنے گلی میں داخل
ہوئی اور تیزی سے اپنا گیٹ بجانے لگی۔ چوکیدار نے فوراً سے پہلے اٹھ کر گیٹ کھولا تو
وہ اندر بھاگی۔ ڈرائنگ روم میں سے تیز تیز چلتے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازے
سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔
بھاگتے بھاگتے اسے سانس چڑھنے
لگی۔ ہانپتے کانپتے اپنی سانس نارمل کرنے لگی۔ وہ حیرت سے سارے منظر کو پھر سوچنے لگی۔
کیا کوئی سچ میں اس کا تعاقب
کر رہا تھا یا یہ اس کا وہم تھا۔ اگر کوئی اس کا تعاقب کر بھی رہا تھا تو کیوں۔ کون
تھا وہ۔ کیا چاہیئے تھا اسے۔ کیا وہ اسے لوٹنے کے ارادے سے اس کے پیچے آرہا تھا۔ کیا
وہ کوئی چور یا لوٹیرا تھا کوئی دشمن یا خفیہ کار۔
سحر اس کی شکل یاد کرنے لگی
پر وہ ناکام رہی اس اَپر پہنے لڑکے نے ٹوپی نیچے کر رکھی تھی اور سر جھکائے ہوئے تھا۔
اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔ سحر اس کا چہرہ دیکھ نہیں پائی تھی۔ اسی کشمکش کو سوچتی
وہ بے دم چال چلتی بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
2nd Sp
"اس نے سب سے زیادہ مجھے پریشان کیا۔۔۔۔۔ مجھے ڈرایا دھمکایا۔۔۔۔
میں خوف کی وجہ سے رات کو سو نہیں پاتی تھی۔۔۔۔۔ دن میں اکیلے نکلنے سے ڈرتی تھی۔۔۔۔۔۔
میں اتنی جلدی شاویز کو معاف کر کے اس سے اپنا رشتہ ہموار نہیں کر سکتی۔۔۔۔" اس
نے دبے دبے غصے میں پاپا پر اپنی دلی کیفیت ظاہر کی۔
دلاور صاحب نے با اعتماد اور مستحکم بھرے انداز میں اس کے گرد
بازو مائل کیا۔
"میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔ اور کون کہہ رہا ہے اس سے فوراً سے رشتہ ہموار کرنے کا۔۔۔۔۔
کسی نے فورس کیا تمہیں۔۔۔۔۔ "دلاور صاحب نے معصومیت سے آنکھیں جھپکاتے ہوئے پوچھا۔
سحر نے نفی میں سر ہلایا۔
"تم اتنے دنوں سے شاویز سے بے رخی برت رہی ہو۔۔۔۔۔ ایک مرتبہ بھی تم نے اس کی عیادت
تک نہیں کی۔۔۔۔۔ وہ موت کی منہ سے بچ کر آیا۔۔۔۔۔ تم نے اس کی خیریت تک دریافت نہیں
کی۔۔۔۔۔ کیا شاویز نے کوئی ردعمل دکھایا۔۔۔۔۔" سوال اب بھی اسی انداز میں پوچھا
گیا۔ سحر نے شرمسار ہوتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔
"تو پھر۔۔۔۔۔ تمہیں جتنا وقت درکار ہے۔۔۔۔ تم لے لو۔۔۔۔میز پر ہاتھ مارو۔۔۔۔۔۔ کھانا
چھوڑو یا چیزیں توڑو۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سحر۔۔۔۔۔ شاویز اس گھر کا فرد ہے۔۔۔۔ وہ اب اس فیملی
کا حصہ ہے۔۔۔۔۔ میں اس سے منہ نہیں پھیر سکتا۔۔۔۔۔ یہ حقیقت تم جتنی جلدی تسلیم کر
لو گی۔۔۔۔۔ اتنا تمہارے لئے آسانی ہوگی۔۔۔۔" دلاور صاحب نے اس کا رخ اپنے جانب
کیا اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرائے۔
"والدین کے دل میں ہر اولاد کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کیا شاویز کے آنے سے میں نے
تمہیں اور صائم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔۔۔۔۔ تم دونوں کے ساتھ میرا رویہ بدل گیا ہے۔۔۔۔"
پاپا اب اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مہو گفتگو تھے۔ سحر نے پھر سے اداسی سے نفی میں سر
ہلایا۔
"میرے دل میں تمہاری اپنی جگہ ہے۔۔۔۔ صائم کی اپنی۔۔۔۔ اور شاویز کی اپنی۔۔۔۔۔ نہ
وہ تم دونوں کی جگہ لے سکتا ہے۔۔۔۔۔ نہ تم دونوں اس کی۔۔۔۔" دلاور صاحب نرمی سے
اپنی بیٹی کو سمجھانے لگے تھے۔
Novel download nh ho rhy
ReplyDelete