Naseeb Novel By Meeshi Sheikh
Naseeb Novel By Meeshi Sheikh
میں سمجھتی تھی کہ جو لوگ اپنے راز، اپنے دل کی باتیں کسی ڈائری
پہ لکھتے ہیں وہ بہت بے وقوف لوگ ہوتے ہیں، اپنے قیمتی راز اک کاغذ پہ لکھ دینا کہاں
کی عقل مندی ہے، راز تب تک راز رہتے ہیں جب تک آپکے سینے میں محفوظ ہیں...
پر آج یہ بے وقوفی میں خود بھی کرنے جا رہی ہوں، کیونکہ مجھے
ڈر ہے کہ اب بھی نہ بولی تو سینہ درد سے پھٹ جائے گا، اور دل کی باتیں میں کسی اور
سے تو کر نہیں سکتی تو اک تم ہی ہو، جس سے میں کہہ سکتی ہوں کہ تم سب خاموشی سے سن
لو گی.... اور جب تک میں تمہاری حفاظت کرتی رہوں گی میرے راز محفوظ رہیں گے، یہ ڈر
تو نہیں نہ کہ تم کسی سے کہہ نہ دو......
کئی گھنٹے تنہا رونے کے بعد میں نے سوچا کہ تمہارا سہارا لیا
جائے کہ بہن میری کوئی ہے نہیں جسکے کندھے پہ سر رکھ کر رو سکوں، ماں اور میرے درمیان
کبھی ایسی بے تکلفی نہیں رہی کہ میں اس سے اپنا دکھ کہہ سکوں، اور بھائی اور باپ سے
تو کچھ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.....
ڈئیر ڈائری آج سہ پہر چار بجے بھائی کے اونچا اونچا بولنے کی
آوازیں آئیں، میں اس وقت کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی، بھائی دو ہی صورتوں میں اونچا
بولا کرتے ہیں اک جب وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور دوسرا جب شدید غصے میں....
میں گھبرا کر باہر نکلی کہ دیکھا جائے کیا ہوا ہے، بھائی امی
جان کے منہ میں گلاب جامن رکھ رہے تھے وہ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، میں پاس گئی تو
اک رس گلا میرے منہ میں بھی ٹھونس دیا، میں بمشکل پوچھ سکی کہ کس خوشی میں....
دانیال کی منگنی ہو گئی ہے.... بھائی نے چیخ کر بتایا
منہ میں پسندیدہ مٹھائی ہونے کے باوجود منہ حلق تک کڑوا ہو گیا.....
اک تیر سا سینے میں جا لگا، تکلیف اتنی کہ سانس لینا مشکل ہونے لگا.....
میں نے ایسے ظاہر کیا کہ رس گلا گلے میں جا لگا ہے، اور پانی کے بہانے کچن میں چلی آئی، پانی کیا پینا تھا میں نے.... پانی تو آنکھوں سے باہر آنے لگا، میں خود پر قابو پانا چاہتی تھی پر بے بس ہو رہی تھی.... منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی چیخوں کو روکا.