Mere Baba By Hina Irshad

Mere Baba By Hina Irshad

Mere Baba By Hina Irshad


گلاب لمحوں پہ کھیلتے بچپن

تو پلٹ کر آ میں تجھ سے اپنا بیتا وقت مانگوں

پھر اس وقت سے میں اپنا  سایہ' اپنا رہنما'' اپنا باپ مانگوں

از حناء ارشاد

جب محبتوں کے امین چھوٹ جائیں تو ہمیں معلوم

   ہوتا ہے کہ کیا  پایا' کیا کھویا؟

جب بھی خوشی و غم کا موقع ہو تو ہم بھی اپنی محبتوں کے امینوں کو' ناچاہتے ہوئے بھی یاد کرتے ہیں اور انہیں اپنے پاس پانا چاہتے ہیں ۔

آج میں بھی اپنے بابا سے ملنی گئی تھی۔

میں چاہوں بھی تو اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتی۔ بھلا اپنی پہلی محبت اپنے والدین سے ملنے والے احساسات ہم بیان کرسکتے ہیں ؟  نہیں بیشک ہم نہیں بیان کرسکتے۔

جب رات کی تاریکی میں' دن کے اجالے میں' انکی ہستی  کو محسوس کرنے' چھونے کے لیے تڑپتی  ہوں' لیکن ہم  اپنی چاہ کو پورا کرنے میں لاحاصل ہی رہیں  تو معلوم ہوتا ہے کہ لاحاصل کی اذیت کیا ہے؟  

ایک وقت تھا جب بابا میرے پاس تھے ؟ پر احساس نہیں تھا ۔ آج جب  میں کئی منتوں کے بعد بابا سے ملنے گئی تو انکے کتبہ کو چھوا اور وہی بیٹھ کر اپنے دل کی تمام 

باتیں' شکایتیں' حسرتیں بتائی تو مجھے بہت سکون ملا۔ حالانکہ میرے اردگرد بہت سناٹے تھے۔

میرے آنسو سوکھ چکے ہیں یا شاید بابا کے بعد تمام ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی اکثر بابا سے بات کرتے ہوئے' یا انہیں یاد کرتے ہوئے میری سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ۔ پھر دل چاہتا ہے کہ آنسو کا نارکنے والا سلسلہ شروع ہو جائے اور میری روح بھی ہلکی ہو جائے۔  ہاں جانتی ہوں کہ میرے بابا کو میرا رونا' آنسو بہانا پسند نہیں تھا کیونکہ میں تو انکی بہادر بیٹی ہوں۔

بابا میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے سن سکتے ہیں۔ میں اپنے دل میں آپکو زندہ محسوس کرتی ہوں۔

آپ تو ہمیشہ سے میرے ساتھ  تھے' ہیں اور ہمیشہ رہے گے۔

پر بابا آپ کے جانے بعد زندگی ٹھہرنے کے ساتھ بہت مختصر ہوگئی ہے۔

آپ کے بعد بابا مجھے ہر لمحہ ڈر لگتا ہے کہ کہیّں میری زندگی کا آخری حصہ  (میری ماں میری کل کائنات)مجھ سے چھین نہ لی جائے۔

پتا ہے بابا جب میں آپ سے تنہائی میں سب کچھ کہتی ہوں اور اسکے بدلے میں مجھے خاموشی ملتی ہے تو مجھے خود سے وحشت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کسی محفل میں جب کوئی کہتا ہے کہ میرے بابا یہ' میرے بابا وہ' تو دل بہت روتا ہے۔ میں تب چپکے سے مسکراتے ہونٹوں سے' کرلاتے دل سے آپ کو الله کی امان میں دیتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ بیٹیوں پہ انکے باپ کا سایہ الله پاک قائم رکھے۔

دیکھیے تو بابا میں کس قدر بولتی ہوں۔ مجھے آپ آج بھی غلط صحیح بات پہ ٹوکیں اور  درست راستے کا تعین کروائے ناں بابا چلیں مجھے آپ اس بات کا ہی جواب دے دیں کہ میں کیسے یقین کروں کہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

یقین جانیے بابا آج بھی میری زباں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ  میں ۔۔۔۔۔۔۔؟

اٹھیں ناں بابا مجھے بتائیے کہ کیسے یقین کروں کہ میرا سائبان' محافظ' مسیحا و غرور اب قائم نہیں ہے۔

بابا آپ کے بن یہ دنیا مجھے باتوں سے مارتی ہے تو وہی نظروں سے گھائل کرتی ہے۔

بابا میں تو تصور میں بھی آپکو سپردِ خاک نہیں کرسکتی۔ کجا کہ  حقیقت۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اب میں گہرے سکون اور کافی وقت کے بعد جا رہی ہوں۔  آپ اب بھی مجھے نہیں پکاریں گے؟

چلیں بابا مان لیا کہ ابھی ملنا ممکن نہیں ہوگا لیکن روحوں کے تو ناطے طے ہیں اور آپ تو ہمیشہ سے میرے ساتھ ہیں۔

میں اب آپکو الله پاک کی حفظ و امان می میں دیتے ہوئے' جلد ہی دوبارہ ملاقات کی حسرت لیے جا رہی ہوں۔

 بابا  میں ناجانے کیوں  پلٹ پلٹ کر دیکھ رہی ہوں؟ شاید  اپنے سر پہ آپکے شفقت کا سایہ کے لیے  ہر بار آس سے پلٹتی ہوں۔ لیکن اب اک اطمینان میری رگوں میں سرائیت کر گیا ہے کہ ہم سب کو جلد و دیر الله کی طرف لوٹنا ہے۔ یہاں سے آسماں تک روح کا تعلق قائم و دائم رہے گا۔ ان شاء الله ۔

ہم پر امید ہیں روحوں کے ملن پہ

جسم تو سپردِ خاک ہے

ملتا ہے سکون روح کے ملن سے

میری غفلتوں کے بعد تو تو میرے ساتھ ہے

از حناء ارشاد

6 Comments

Previous Post Next Post