”میں خود چل
سکتی ہوں“ مژگان نے احتجاج کیا لیکن یاور نے اس کی بات پہ کان نہیں دھرے۔
”تمھارا بخار ابھی تک ختم نہیں ہوا
ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا تمیں ٹھنڈے پانی سے نہلایا جائے۔“ یاور نے کہا تو وہ ایک دم
سرخ ہوئی۔
”میں خود نہا لوں گی آپ باہر جائیں۔“
مژگان نے اسے باہر بھیجنا چاہا لیکن وہ جیکوزی میں پانی بھرنے لگا۔ اس کی طرف
دیکھا تو اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر یاور کو اسے تنگ کرنے کا دل چاہا۔
”کیوں؟ مجھ سے شرم آ رہی ہے؟“ وہ لال ٹماٹر جیسا چہرہ لیے اسے خفت سے گھورنے
لگی۔
”آپ پلیز باہر جائیں۔ میں خود ہی نہا
لوں گی۔“ وہ جیکوزی میں پانی بھر چکا تھا۔ اس کے چہرے کو دیکھا، جو اس کے باہر
جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے اور اسے جیکوزی میں بٹھا
دیا اور خود بھی اس کے ساتھ پانی میں گھس گیا۔
”بے فکر رہو۔ تھوڑا دیر پانی میں
بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔“ وہ اسے بس تنگ کر رہا تھا۔ مژگان کی کمر اس کے سینے سے
لگی تھی۔ اس نے اپنا چہرہ اس کے کندھے پہ رکھا اور مژگان کے ہاتھ تھام کر بازو اس
کے گرد باندھے۔
”تم نے میری جان نکال دی تھی۔ آئیندہ
اگر ایسی بات کی نا تو چھوڑوں گا نہیں میں تمھیں۔“
”کیسی بات؟“ وہ انجان بنتے ہوئے
پوچھنے لگی۔ وہ اس وقت جس انداز میں اسے پانی میں لے کر بیٹھا تھا، مژگان کو بہت
شرم آ رہی تھی۔
”یہی۔۔۔۔جان لینے والی۔۔۔۔تم ”میری“
جان ہو۔ اگر کوئی مجھے میری جان سے الگ کرنے کی کوشش کرے گا تو میں اسے چھوڑوں گا
نہیں۔ چاہے وہ تم ہی کیوں نہ ہو۔“
یاور نے بڑے پوزیسیو انداز میں کہا
تو مژگان کے لبوں پر بے ساختہ شرمیلی سی مسکان آگئی۔ یاور نے سائیڈ سے اسے مسکراتے
دیکھا تو بے اختیار اس کا گال چوما۔ وہ مزید لال ٹماٹر ہو گئی۔ یاور نے اس کا شرمانا محسوس کیا تو بے ساختہ
ہنسا۔
”بخار میں بھی کیسی کیسی باتیں سوچ
رہی ہو۔۔۔“
اس نے ہنستے ہنستے اسے تنگ کرنے کی
غرض سے اس طرح کہا جیسے اس کا دماغ پڑھ رہا ہو۔
”میں ایسا ویسا کچھ نہیں سوچ رہی۔“
مژگان نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر بات کوور کرنے کی کوشش کی تو وہ مزید زور سے
ہنسا۔ مژگان نے شاید پہلی بار اس کی ہنسی سُنی تھی۔ وہ اس کا شرمانا بہت انجوائے
کر رہا تھا۔
”اچھا؟؟؟ تو اتنی سرخ کیوں ہو رہی
ہو؟“ اس نے اس کی گردن کی پشت پہ بوسہ دیا۔ مژگان ایک دم اس کی بازو کا حصار توڑ
کر اٹھنے لگی۔
”کیا ہوا؟ کہاں بھاگ رہی ہو؟“
”بس۔۔۔اتر گیا میرا بخار۔“ وہ اس کی جسارتوں سے گھبرا رہی تھی۔ یاور نے
اسے مزید تنگ نہیں کیا اور خود بھی۔مسکرتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ سارے کپڑے بھیگ چکے
تھے لیکن یہاں کسے پرواہ تھی؟ اس نے قریبی شیلف سے ایک تولیہ اٹھایا اور مژگان کو
کوَور کر کے اپنے نزیک کیا۔ وہ سرخ گالوں اور جھکی ہوئی نظروں سے اس کے دل کے تار
چھیڑ رہی تھی۔ یاور نے اس کے ہونٹوں پہ ایک بوسہ دیا۔
”چلو آٶ، چینج کر
لیں۔۔۔“ اس نے جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے لیے سنجیدہ سی شکل بنا کر کہا تو وہ
ایک دم بدک کر پیچھے ہوئی۔
”میں خود ہی کر لوں گی۔ آپ بہت ہی بے
شرم ہیں۔ تھوڑا سا لحاظ کریں۔ میں بیمار ہوں۔“ مژگان نے تولیہ اپنے گرد زور سے
کسا، مبادا وہ کہیں کچھ اور ہی نہ کر دے۔
”بیمار ہو اسی لیے تو خیال کر رہا ہوں۔
ورنہ تندرست بندہ تو خود ہی چینج کرلیتا ہے“ وہ اسے اسی طرح تولیہ لپیٹے سمیت اٹھا
کر ڈریسنگ روم میں لے آیا۔
”پلیز۔۔۔۔۔“ مژگان رونے والی ہو رہی
تھی۔ یاور نے اسے نیچے اتارا۔
”اچھا لیکن مجھےتو چینج کرنے دو۔“ اس
سے پہلے کہ وہ اسے خود باہر نکالتی، یاور نے اپنی الماری کھولی اور ایک ڈھیلی سی
ٹی شرٹ نکالی۔ پھر اپنی گیلی شرٹ اور بنیان اتاری اور اس کے سامنے ہی دوسری پہن
لی۔ مژگان نے شرم کے مارے آنکھیں زور سے بند کر لیں۔
”اتنی ایکسرسائز کر کے ایسی باڈی
بنائی ہے۔ اسی فگر کے پیچھے لڑکیاں پاگل ہیں اور تم نے ایسے آنکھیں بند کیں ہیں
جیسے بہت ہی برا ہو۔“ وہ شکوہ کر رہا تھا۔ مژگان نے اپنی لزرتی پلکوں والی آنکھیں
کھولیں لیکن نظریں جھکی رکھ کر اس کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔
”تم بھی چینج کر لو۔ یہ نہ ہو بخار
اتارنے کے چکر میں ٹھنڈ لگوا لو۔ میں باہر جا رہا ہوں۔“
وہ اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک
کر کے اپنا لوز سا ٹراٶزر اٹھا کر باہرآ گیا۔ مژگان کپڑے بدل کر
باہر نکلی تو یاور نے اپنے اور اس کے گیلے کپڑے لانڈری کے لیے بھجوا دیے۔
”اب بتاٶ؟ آرام کرنا
ہے یا باہر جانا ہے؟“ وہ اس سے بہت پیار اور نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں۔ آرام ہی کروں گی۔“ اس نے سوچ
کر کہا تو یاور نے بیڈ سے کمبل ہٹا کر اس کی جگہ بنائی۔ وہ آرام سے اندر گھس گئی
تو یاور بھی اس کے ساتھ ہی گھس گیا۔ مژگان نے اسے اپنے ساتھ بستر میں گھستے دیکھا
تو اچانک سے اسے کچھ یاد آیا۔
”آج آپ نے آفس نہیں جانا؟“
”نہیں۔“ یاور نے اسے اپنے قریب کیا
”میری جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے میں آج لِیو پر ہوں۔“