My Bint Dairy By Bint E Zahid

My Bint Dairy By Bint E Zahid

My Bint Dairy By Bint E Zahid

Novel Name : My Bint Dairy
Writer Name: Bint E Zahid
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
My Bint Dairy By Bint E Zahid is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

مائے بنٹ ڈائری

بنتِ زاہد


ناجانے لوگ ہمیں خوش دیکھ کر کیوں جلتے ہیں

ہماری تو عادت ہے غم میں بھی مسکرانے کی


وہ میری پسند تھی کیونکہ وہ مُجھے تمام لڑکیوں سے مختلف لگتی تھی۔بس اسی لیئے میں نے شادی بھی اُسی سے کی تھی۔ہاں۔۔۔!! اب وہ میری بیوی تھی۔پسند کی شادی کی تھی اِس لیے میرے علاوہ گھر میں اُسے کوئی پسند نہ کرتا تھا۔جب بھی امی یا بہنیں اُس کو کڑوی کسیلی باتیں سناتیں تو وہ کمال مہارت سے اُنہیں نظر انداز کر جاتی۔بعض لوگوں کی نظروں میں حریم نہایت تابعدار تھی کیونکہ وہ ہر کسی کے طنز کو برداشت کر جاتی تھی اور بعض لوگ اسے بےحس سمجھتے تھے کہ اِس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی۔


اُس رات میں نے خود محسوس کیا جب امی نے سارا(بہن) کے سسرال والوں کے سامنے بھی حریم کو کڑوی کسیلی باتیں سنائیں۔اُس رات میں سو نہ سکا۔ساری رات کروٹیں بدلتے ہی گزر گئی۔ صبح میں نے حریم سے سب سے پہلے وہی بات کی تھی جو ساری رات میں سوچتا رہا۔


"حریم۔۔۔!! کل رات امی نے جو کچھ بھی تم سے کہا اُن کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔"میں نے اس کے ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ میں نہایت شرمندہ تھا۔۔۔۔


"ارے شہریار۔۔۔۔!! کوئی بات نہیں۔آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں۔"شاید اس نے میرے چہرے پر بےبسی محسوس کر لی تھی۔


شہریار: "ایک بات پوچھوں۔۔۔؟؟"


حریم: "جی"


"ا۔امی اور باقی سب کی باتیں سن کر۔۔۔۔ کیا تم اس ماحول میں گھٹن کا شکار نہیں ہوتی۔"میں نے آخر پوچھ ہی ڈالا۔۔۔۔


"نہیں شہریار!! مجھے عادت ہو چُکی ہے۔اب میں ان سب باتوں کو سر پر سوار نہیں کرتی۔آپ میری وجہ سے پریشان مت ہوا کریں۔"اُس نے بڑی سنجیدگی سے کہا جس نے مجھے حیرت میں گھیر لیا۔۔۔۔


ایک روز میں حریم کو اُس کے میکے لے کر گیا۔اُس کے بھائیوں کے اسرار کرنے پر میں اُسے ایک روز کے لئے وہی چھوڑ آیا۔گھر واپس آکر مُجھے بہت اکیلا پن محسوس ہو رہا تھا۔سوچ رہا تھا کسی دوست کے پاس کُچھ دیر کے لیے چلا جاؤں۔ پرسکون محسوس کر سکوں گا۔یہی سوچتے ہوئے میں نے کوئی صاف ٹی شرٹ نکالنے کی غرض سے الماری کھولی۔کپڑوں کو ادھر اُدھر کرتے ہوئے میری نظر ایک کونے میں پڑی ہوئی سیاہ رنگ کی ڈائری پر پڑی۔میں نے پہلا صفحہ کھولا بڑے حروف میں لکھا تھا"My Burnt Diary"۔ مجھے نہیں معلوم تھا حریم کو ڈائری لکھنے کا بھی کوئی شوق ہے۔میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا۔


"میری سہیلیاں کہتی تھیں کہ میں عام لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں۔میں اُن سب سے بہت مختلف ہوں شاید اس لیے کہ میں اپنے جذبات و احساسات لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس ڈائری پر آشکار کر لیتی ہوں۔جب لوگوں کی نیزے کی مانند چھبتی باتیں میری روح کو چھلنی کرتی ہیں تب میرا بھی جی چاہتا ہے میں چیخوں،چلاؤں،اپنے جذبات باہر نکالوں مگر کیا کروں میں اپنے آنسووں کو لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔میں لوگوں کو یہ نہیں دیکھانا چاہتی کہ میں کمزور ہوں۔۔۔۔۔۔بلکہ میں تو بہت مضبوط ہوں نا۔۔۔۔۔"


میں اس کے قرب میں ڈوبے الفاظ پڑھ کر دھنگ رہ گیا۔ دھندلاتی آنکھوں سے کُچھ صفحات آگے کیے۔پھر ایک صفحے پر میری نظر ٹھہری۔


"میں ایک عام سی لڑکی ہوں۔بس فرق یہ ہے کہ میں باقی لڑکیوں کی طرح اپنے آنسو سب کو نہیں دیکھاتی بلکہ اندر ہی اندر پی جاتی ہوں۔"


"ح۔حریم۔۔۔!!"میں نے گھبرا کر ڈائری بند کر دی۔اسی قرب سے میری آنکھوں سے بےختیار آنسو بہہ نکلے۔


وہ ناجانے کب سے خود کو مضبوط بناتے بناتے اندر سے کتنا ٹوٹ چُکی تھی۔ لڑکیاں واقعی مضبوط ہوتی ہیں کچھ اسی وقت غصہ نکال لیتی ہیں جبکہ کچھ مروت میں چپ رہتی ہیں کبھی اپنا گھر بچانے کے لیے،کبھی اولاد کے اچھے مستقبل کے لیے اور کبھی والدین اور بھائیوں کی عزت کی خاطر۔ عورت کو بہت سی قربانیاں دینی ہوتی ہیں اپنا گھر بسانے کے لیے کیونکہ ہمارے معاشرے کی نظر میں گھر بسانا عورت کا کام ہے۔ 

ختم_شد🦋

 

Post a Comment

Previous Post Next Post