Yawar Ali Sikandar angry with Mazgan | Khata E Mohabbat | Episode 28 - K...


مژگان بیڈ روم میں نہیں تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ کمرہ خالی تھا۔ اس نے اپنا کوٹ ایک طرف کو رکھا اور کف کے بٹن کھولنے لگا۔ کھولتے کھولتے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر رکا۔ اس وقت وہ اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں کی سرخی کے باعث وہ اور بھی زیادہ پر کشش لگ رہا تھا۔ وہ اپنا مزید جائزہ لے رہا تھا جب مژگان اچانک سے کمرے میں نمودار ہوئی۔ وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی۔ باتھ روب پہنے، گیلے بالوں کو تولیے سے رگڑتی وہ باہر نکلی تھی کہ اپنے سامنے یاور کو دیکھ کر ایک دم ٹھٹھکی تھی۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ بہت سنجیدہ تھا اور نظریں بہت گہری تھیں۔ وہ چند قدم آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔ بغیر کچھ کہے اس نے اپنا ہاتھ اس کے چہرے پہ رکھا اور اس کے ہونٹوں پہ جھکا۔ مژگان نے بے ساختہ آنکھیں بند کیں۔ وہ ایک دم رک گیا تھا۔ اس نے مژگان کی بند آنکھوں کو بہت غور سے دیکھا تھا۔ کچھ لمحے خاموشی سے سرک گئے۔ جب کچھ بھی نہ ہوا تو مژگان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ اب بھی اس کے بہت قریب کھڑا تھا لیکن صرف اسے دیکھ رہا تھا۔ مژگان کو اس کی نظروں میں کیا کچھ نظر نہیں آیا تھا۔

محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تنہائی۔۔۔۔۔۔۔

تھکن۔۔۔۔۔

تھوڑا سا غصہ۔۔۔۔

ٹوٹے دل کی کرچیاں۔۔۔۔۔

ویرانی۔۔۔۔۔

اور ناراضگی۔۔۔۔

آج دور نہیں جاؤ گی مجھ سے؟“ وہ اس کے گال پہ ہاتھ رکھے، بلا کی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ مژگان کا دل ڈوب کر ابھرا۔ وہ اس سے ناراض تھا۔ یا شاید غصہ بھی۔

آئی ایم س۔۔۔۔۔

اس کی بات پوری سنے بغیر ہی اس نے اپنا ہاتھ کھینچا اور سیدھا ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔ مژگان نے چہرہ موڑ کر ڈریسنگ روم کے دروازے کو دیکھا جہاں سے وہ ابھی اندر گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔ اس کے دل کو تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ اس سے بے رخی برت رہا تھا اور مژگان وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔ یاور کو اسے دیکھ کر پھر سے وہ رات یاد آئی تھی جب وہ پہلی بار اس کے سامنے باتھ روب میں آئی تھی۔ اس دن وہ اس سے فرار کے راستے ڈھونڈ رہی تھی اور آج بغیر کسی مزاحمت کے وہ اسے خود ہی اپنا آپ سونپ رہی تھی۔ اس نے کتنی شدت سے خود کو روکا تھا۔ وہ اس سے ناراض نہیں تھا۔ اسے مژگان پہ غصہ تھا۔ وہ اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ کس طرح اس نے یاور کا دل توڑا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ نہا کر نکلا تو مژگان بیڈ کے کنارے پہ بیٹھی تھی۔ اس کی پلکیں بھیگی تھیں۔ یقیناً روئی تھی۔ اس نے بہت جبر کر کے خود کو اس کے قریب جانے سے روکا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ اٹھی تھی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر وہ کچھ سنے بغیر ہی کمرے سے نکل گیا۔ مژگان کی آنکھیں پھر سے برسنے لگی تھیں۔



Post a Comment

Previous Post Next Post