Dard Judai Ka By Aiman

Dard Judai Ka By Aiman

Dard Judai Ka By Aiman

Novel Name : Dard Judai Ka
Writer Name: Aiman
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
Dard Judai Ka By Aiman is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

درد جدائی کا

ایمن

 

شدید پیاس کی وجہ سے آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تو اس نے کچن سے پانی پینے کے بعد اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے لیکن یہ کیا ۔۔۔۔۔

اس کے قدم خودبخود سیڑھیوں کی طرف چلنے لگے ۔۔۔۔ یہ میں چھت پہ کیوں جارہی ھوں ۔۔؟

اس نے خود سے سوال کیا مگر وہ اپنے ادھ سوئے دماغ سے اس سوال کا جواب ناں پاسکی ۔۔۔۔

آخری سیڑھی چڑھتے ہی اسے سامنے ایک قدآور وجود نظر آیا اس نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔۔کون ہو آپ ۔۔۔؟ اس نے سوال کیا

مگر وہ کوئی جواب دیے بنا ہی دیوار کے اس پار دیکھنے لگا جس کی دوسری طرف وسیع قبرستان اپنی وحشت اور خاموشی سے آباد تھا

وہ اس وجود کی طرف بڑھی اور بلکل ساتھ آکر کھڑی ہو گئی میں نے پوچھا کون ہو تم ۔۔۔؟

زوار ۔۔۔۔ ایک دم سے جواب آیا

زوار ۔۔۔؟ اس کی حیرت اور خوف سے آنکھیں پھٹ گئیں

مگر  آ۔۔۔۔۔آپ تو مر چکے تھے ایک سال پہلے اسنے اپنے گم ہوتے حواس کو قابو کرتے پوچھا

۔۔۔

تم جانتی ہو ماہم ۔۔۔ جسے تم لوگ ایکسیڈنٹ کے بعد مرا ہوا سمجھ کے دفنا آئے تھے وہ ذندہ تھا ۔۔۔ اس وجود یعنی اس کے شوہر نے جواب دیا

کیا مطلب ۔۔۔؟ ماہم نے ناں سمجھتے ھوئے پوچھا

مطلب یہ کہ میں نے قبر کی پہلی رات ذندہ کاٹی تھی ۔۔۔۔ کیا تم بھی نہیں جان سکی تھی کے تمہارا شوہر ابھی مرا نہیں ھے ۔۔۔۔۔

 

 

اس کا پیار اس کا شوہر اپنی موت سے ایک سال بعد اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔

اسےلگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ھے ابھی بھابھی کی کڑک دار آواذ آئے گی اور یہ خواب ٹوٹ جائے گا ۔۔۔۔۔مگر ایسا نہیں ہوا زوار سچ میں اس کے سامنے تھا

میں جانتا ہوں ماہم ۔۔۔ میری موت کے بعد تمہیں جو جو تکلیف اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا کس طرح تمہیں میرے گھر والوں نے نکال دیا اور اب تمہاری بھابھی تم پہ ظلم کرتی ھے ۔۔۔۔

آپ مجھے چھوڑیں یہ بتائیں آپ واپس کیسے آئے ہیں ۔؟؟؟ اسے اس وقت اپنے محبوب شوہر سے ذرا ڈر خوف محسوس نہیں ہورہا تھا

میں تم سے ملنے آیا ہوں ۔۔۔۔

تمہیں تسلی دینے آیا ہوں ۔۔۔

کہ میں تم سے دور نہیں ہوں ہمیشہ ساتھ ہوں

اب مجھے واپس جانا ہوگا کل پھر آؤں گا اپنا خیال رکھنا اور کسی سے ذکر مت کرنا

ماہم ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کے وہ وجود غائب ہوچکا تھا

وہ کچھ ناں سمجھتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آگئی ۔۔

صبح آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی اسے رات کا سارا منظر یاد آیا ۔۔۔۔

ایسا کیسے ہو سکتا ھے کوئی مرا ہوا انسان ملنے آجائے ۔۔۔ میں نے شاید خواب دیکھا تھا

اس نے سوچتے ہوئے وضو کیا اور نماز کے بعد بہت ساری دعائیں زوار کے لیے کیں ۔۔۔۔۔

سارا دن کاموں میں گزر گیا

رات کو اپنے بستر پہ لیٹتے ہی اسے رات کا سارا منظر یاد آیا مگر وہ اسے خواب سمجھ کے یاد کررہی تھی

۔۔۔۔

رات کا پچھلا پہر ہوگا جب اچانک سے اس کی آنکھ کھلی وہ ابھی کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کے کوئی ان دیکھی طاقت اسے سیڑھیوں کی طرف لے جارہی تھی ۔۔۔۔

تو کیا وہ سب سچ تھا ۔۔؟ اس نے خود سے سوال کیا ۔۔

چھت پہ دیوار کے پاس ہی سفید کپڑوں میں زوار قبرستان کی طرف منہ کیے کھڑا تھا ۔۔۔

اس ان دیکھی طاقت نے ماہم کو اس کے برابر لا کھڑا کیا ۔۔۔

زوار آپ سچ میں آئیں ہیں ۔۔۔؟

اس نے بےیقینی سے پوچھا ۔۔

ہاں میں سچ میں آیا ہوں تمہارے لیئے

اس نے قبرستان کی طرف نظریں جمائے جواب دیا

زوار ۔۔۔ آپ ذندہ تھے جب آپ کو دفن کیا ۔۔؟

ہاں ۔۔۔ ذندہ تھا ۔۔۔ تم جانتی ہو ماہم جب قبر بند کردی تب میری انکھیں کھل چکیں تھیں میں نے بہت پکارا سب کو بہت آوازیں دیں لیکن کسی نے نہیں سنی ۔۔۔ میرے منہ میں مٹی بھر گئی تھی چیختے چلاتے مگر کسی نے نہیں سنی

ماہم نے تکلیف سے آنکھیں بند کرلیں ۔۔۔۔

یہ تم آدھی رات کس یار سے ملنے اوپر آئی ہو۔۔؟؟

ایک دم سے بھابھی کی کڑک دار آواز گونجی ۔۔۔

 

اس نے مڑ کے بھابھی کو دیکھا

وہ بھابھی ۔۔۔۔ زوار ۔۔۔۔۔

کیا زوار ۔۔۔۔؟

اتنی دیر میں بھائی بھی چھت پہ آگیا ۔۔

یہاں کیا کررہی ہو ماہم اتنی رات کو ۔۔۔۔؟

کسی سے اس بات کا زکر مت کرنا ۔۔۔۔ اسے ایک دم زوار کی بات یاد آئی

کچھ نہیں بھائی میں شاید نیند میں چلتے ہوئے یہاں آگئی تھی مجھے خود یاد نہیں کچھ ۔۔

ہاں ہاں سب جانتی ہوں میں نیند میں باتیں بھی کررہی تھی کیا ۔۔؟بھابھی نے بھائی کے دل میں شک پیدا کرنا چاہا

بلکہ جب میں اوپر آئی تھی تو کوئی اچانک سے دیوار پھلانگ کے نیچے اترا تھا ۔۔۔

تمہارا دماغ ٹھیک ہے ۔۔؟ بھائی نے ذبان کو لگام دینا چاہی

 چلو ماہم نیچے اور آئندہ اس ٹائم اوپر آنے کی ضرورت نہیں ھے تم جانتی ہو سامنے قبرستان ہے اور اس ٹائم دوسری مخلوق ہوتی ھے وہاں ۔۔۔

مگر بھائی زوار بھی تو وہاں ھے ۔۔۔۔اس نے ایک دم سے کہا

زوار تو وہاں ھے یہ پتا نہیں کب جائے گی ۔۔۔بھابھی نے اکتا کر سوچا ۔۔

چلو آؤ نیچے ۔۔۔بھائی اسے کمرے میں چھوڑ کر چلے گئے ۔۔۔۔

باقی رات اس کی زوار کے بارے میں سوچتے گزر گئی ۔۔۔۔ تو کیا میرا شوہر مرنے کے بعد بھی میرےساتھ ھے یہ احساس اسے بہت سکون دے رہا تھا ۔۔۔

صبح نماز کے بعد اس نے بہت ساری دعائیں کیں زوار کے لیے اور گھر کے کاموں میں مصروف ہوتے ہوئے بھی وہ سارا وقت رات کے بارے میں سوچتی رہی ۔۔۔۔

چھت پہ کپڑے سکھانے گئی تو اس نے دیوار کے پاس کھڑے ہوکے زوار کو محسوس کرنا چاہا مگر اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔

سامنے قبرستان بھی روشن اور خاموش تھا ۔۔۔

اس نے لمبی سانس کھینچی اور بالٹی اٹھا کر نیچے آگئی ۔۔۔

عشاء کی نماز کے بعد وہ وظائف میں مصروف تھی کافی وقت بعد اسے پتا نہیں کب جائےنماز پر ہی نیند آگئی ۔۔

ناجانے رات کا کونسا پہر تھا جب کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اچانک سے اس کی آنکھ کھلی تو آس پاس کوئی نہیں تھا ۔۔

وہ اٹھی تو ایک دم سے اسے اپنے آس پاس زوار کی خوشبو محسوس ہوئی ۔۔۔

تو کیا زوار مجھے بلا رہے ہیں ۔۔۔۔

اس نے خوشی سے دھڑکتے دل سے سوچا ۔۔

اور اٹھی اور آہستہ سے دروازہ کھول کے ادھر اودھر دیکھا مگر باہر کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔

اس نے دبے قدموں سے سیڑھیاں پار کیں تو دیوار کے پاس زوار قبرستان کی طرف منہ کیے کھڑا تھا ۔۔

زوار ۔۔۔۔۔ اس نے آہستہ سے پکارا

تو زوار نے مڑ کے دیکھا وہ بھاگتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی ۔۔۔

مجھے معاف کردو ماہم ۔۔۔

میری وجہ سے تمہیں اتنا کچھ سہنا پڑا مگر میں کیا کروں مجھے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں ۔۔۔۔

میں بھی آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔

اسے محسوس ہوا کے زوار وہاں نہیں ھے ۔۔

اس نے اچانک ادھر اودھر دیکھا تو کسی نے بازو سے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور جبڑا توڑ دینے والا تھپڑ اس کے منہ پہ پڑا ۔۔۔۔

میں نے پہلے ہی کہا تھا کسی عاشق کو ملنے جاتی ھے مگر آپ کو اپنی بہن کی پارسائی پہ بہت یقین تھا ناں ۔۔۔

اب دیکھ لیا کس کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی جارہی ھیں ۔۔۔

اس کا باذو ابھی بھی بھائی کے ہاتھ میں تھا اور وہ انگارہ برساتی نظر سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔

چلو نیچے تمہارا بہت جلد انتظام کرتا ہوں میں ۔۔۔

باقی رات اس نے کمرے میں روتے ہوئے گزاری ۔۔۔

صبح جب کمرے کا دروازہ کھلا تو بھابھی ہاتھوں میں کپڑے پکڑے کھڑیں تھیں ۔۔۔۔

جلدی سے یہ کپڑے پہنو اور تیار ہوجاؤ تمہارا نکاح ہے تھوڑی دیر تک۔۔۔۔

بھابھی نے کہا ۔۔

مجھے کسی سے نکاح نہیں کرنا بھابھی پلیز ۔۔۔

اس نے منت والے انداز میں کہا ۔۔۔

تو کس سے کرنا ھے۔۔۔؟ اس عاشق سے جس کے ساتھ آدھی رات کو ملنے جاتی ہو۔۔۔

بھابھی نے طنزیہ کہا ۔۔۔

بھابھی پلیز بھائی کو منع کریں میں زوار کی جگہ کسی کو نہیں دے سکتی ۔۔۔

تم اس کی جگہ پتا نہیں کس کس کو دے چکی ہو  اب اپنا منہ بند رکھو اور تیار ہوجاؤ بڑی مشکل سے جان چھوٹنے لگی ھے تم سے ۔۔۔

روتے روتے سارا دن گزر گیا شام کو بھائی ایک ادھیڑ عمر شخص اور ساتھ مولوی صاحب اور گواہوں کے گھر میں داخل ہوئے ۔۔۔

ماہم کو لے کے آؤ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا ۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔۔ اس نے تابع داری سے جواب دیا

مگر دروازہ کھولتے ہی اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔۔

 

ماہم اپنے بستر پر بیہوش پڑی تھی ۔۔۔۔۔

بھابھی نے جلدی سے اپنے شوہر کو آواز دی ۔۔۔۔

اس کمبخت کو کیا ہوگیا ھے اتنی مشکل سے جان چھوٹنے لگی تھی بھابھی نے بڑبڑاتے ہوئے ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی ۔۔۔۔

مجھے لگتا ھے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑے گا ۔۔۔بھائی نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

مولوی صاحب اور باقی لوگوں کو اس کی طبیعت خرابی کا بتا کر شام تک ملتوی کردیا نکاح ۔۔۔۔

بھائی بھابھی اسے لے کر ہاسپٹل روانہ ہوگئے ۔۔۔

بہت ذیادہ ٹینشن اور کمزوری کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی ھے آپ ان کو ریلکیس رکھیں اور کھانے پینے کا پورا خیال رکھیں ۔۔۔

بہت ساری ادویات کے ساتھ اسے گھر واپس لے آئے ۔۔۔

مجھے لگتا ھے ہمیں نکاح تھوڑا لیٹ کردینا چاہیے ۔۔۔۔

جو بھی تھا ماہم اس کی بہن تھی اس کی یہ حالت دیکھ کر بھائی کے دل کو کچھ ہوا ۔۔۔

آپ جو مرضی کریں مگر دو دن بعد مجھے یہ اس گھر میں نہیں چاہیے ۔۔

بھابھی نے وارننگ دی ۔۔۔

سارا دن کی مصروفیت کے بعد وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔۔۔

آدھی رات کو اچانک ماہم کی آنکھ کھلی تو اس نے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے باہر کو قدم بڑھائے ۔۔۔۔

سیڑھیاں چڑھ کے اس نے چھت کے پہ ادھر اودھر دیکھا مگر زوار کہیں نہیں تھا ۔۔۔

کافی ٹائم بےچینی سے اس کا انتظار کرنے کے بعد وہ دیوار کے پاس آئی ۔۔۔

اگر آج آپ نہیں آئیں گے تو میں آپ کے پاس آجاؤ گی ۔۔۔۔۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی چھری پر نظر ڈالی ۔۔۔۔

تھوڑا وقت انتظار کے بعد اس نے اپنی کلائی پر وہ چھری رکھی اور آنکھیں زور سے بند کیں ۔۔۔۔

ماہم ۔۔۔۔۔

اسے ایک دم زوار کی آواز آئی ۔۔۔

یہ تم کیا کررہی ہو۔۔۔

مجھے آپ کے ساتھ رہنا ھے ورنہ یہ لوگ میرا نکاح کر دیں گے اور اس سے اچھا میں خودکشی کرلوں ۔۔

ماہم تم میرے ساتھ نہیں جاسکتی ۔۔۔۔

میں آئندہ تم سے ملنے نہیں آؤں گا تمہارے بھائی تمہارے حق میں جو فیصلہ کریں گے وہ بہتر ہوگا حرام موت سے ۔۔۔۔

آپ بھی ۔۔۔۔؟

زوار آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں ۔۔؟

ہاں ماہم اب تم جاؤ ۔۔۔ مجھے لگتا ھے میرے آنے سے تمہارے لیے مسائل اور ذیادہ ہوگئے ہیں آئندہ میں نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔زوار نے کہنے کے ساتھ  ہی دو قدم پیچھے ہٹائے ۔۔

ماہم نے جب پیچھے دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھا بلکہ سیڑھیوں پہ کسی کے قدموں کی آواذ کے ساتھ غصے سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔۔

وہ جانتی تھی کے بھابھی اور بھائی ہی ہوں گے۔۔۔

اس نے گردن گما کے قبرستان کی طرف دیکھا تو زوار اس طرف جاتے ہوئے نظر آیا ۔۔۔

اس نے چھری پہ گرفت مضبوط کی سیڑھیوں سے آوازیں قریب آرہی تھیں  اور زوار دور جارہا تھا ۔۔۔۔

اچانک زوار نے مڑ کے دیکھا اور اپنے باذو اس پھیلا دیئے ۔۔۔۔

اس نے پاس پڑی ٹوٹی کرسی پہ پاؤں رکھ کے دیوار پہ دوسرا پاؤں رکھا اگلا قدم ہوا میں تھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ زوار کے باذؤں میں تھی ۔۔۔۔۔۔

بھائی نے دیوار سے ایک سایہ سا نیچے کودتے دیکھا تو بھاگ کے دیوار کے پاس کھڑے ہوکے نیچے دیکھا تو نیچے اس کی بہن کا بےجان وجود پڑا تھا ۔۔۔۔

ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی رات کا آخری پہر تھا درختوں کی نیم برہنہ شاخیں جھول رہی تھیں بوڑھا برگر کا درخت اپنی بزرگانہ خاموشی کے ساتھ تازہ بنی قبر کے پاس بیٹھے دو وجود کو دیکھ رہا تھا جو اس دنیا سے تھے مگر اس دنیا کے نہیں تھے ۔۔۔۔۔

     

                        The End

 

Post a Comment

Previous Post Next Post