Zamzama and Ahad reached Moscow | Romantic Novel | By Fareeha Mirza Epis...



" تم خاموش نہیں رہ سکتی ۔" وہ اس کے منہ سے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہوا دبی دبی آواز میں غرایا۔

" مجھے ڈر لگ رہا ہے " وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی اور اپنا ہاتھ چہرے پر پھیر کر حواس مجمع کیے۔

" اوہ ۔۔۔تو مس وائرس کو ڈر بھی لگتا ہے۔ " وہ حیران ہونے کی ایکٹنگ کرتا ہوا بولا۔ زمزمہ اس وقت اسے کوئی منہ توڑ جواب دینے سے قاصر تھی۔

" دیکھیں پلیز ۔۔۔میرے ساتھ باتیں کر لیں ورنہ میرا دل بند ہو جائے گا۔ مجھے لگ رہا ہے میں بےہوش ہونے والی ہوں۔ " وہ التجائیہ انداز میں بولی۔ اس کی حالت واقعی قابل رحم تھی۔ 

" میں تم سے باتیں کیوں کروں ؟" وہ ابرو اٹھا کر بولا۔

"کیونکہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ " وہ رو دینے کو تھی۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے " جیزین نے اس کی نقل اتاری۔ زمزمہ نے بےبسی سے اسے دیکھا ۔ مارے خوف کے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں ۔

" فکر مت کرو ۔۔۔۔تم سہی سلامت پہنچ جائو گی۔ پلین کریش نہیں ہو گا۔ پی آئی اے کے پلین روز کریش نہیں ہوتے۔ " اس نے بڑی سنجیدگی سے اپنے تئیں اسے تسلی دی تھی مگر اس کی بات سن کر زمزمہ کا حلق خشک ہو گیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو اس نے نیوز میں پی آئی اے کی فلائٹ کریش ہونے کی خبر سنی تھی۔

"آپ مجھے ڈرا رہے ہیں۔ ۔۔۔" اس کو بےتحاشہ خوف نے آن گھیرا تھا۔

"میں کب ڈرا رہا ہوں ۔۔۔۔" وہ انجان بن کر بولا۔

" میں پاپا کو بتا دوں گی کہ آپ مجھے تنگ کر رہے تھے۔ آپ نے مجھے ڈرایا بھی تھا۔ " زمزمہ نے اسے دھمکی دی۔ وہ بےاختیار قہقہ لگا کر ہنسا اور پھر اس کی حواس باختہ صورت دیکھ کر ہنستا ہی چلا گیا تھا۔

" بتا دو ۔میں کون سا ان سے ڈرتا ہوں ۔" وہ چڑانے والے انداز میں بولا تھا۔ وہ تپ کر رہ گئی تھی۔ بغیر کچھ کہے اس نے رخ پھیر لیا تھا۔ مارے بے بسی کے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کا رواں رواں اپنی سلامتی کا دعا گو تھا۔ وہ اپنے دل کی تیز ہوتی دھڑکن با آسانی سن سکتی تھی ۔

"ویسے مس وائرس ۔۔۔۔" جیزین کی سنجیدہ آواز پر اس نے چہرہ موڑ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ " تمہارا دل اتنی تیز کیوں دھڑک رہا ہے ؟" جیزین کے سوال پر اس نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کچھ بولنے کے لیے لب کھولے مگر جیزین نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔

"میں سمجھ سکتا ہوں ۔۔۔۔ایک انتہائی ہینڈسم لڑکا تمہارے ساتھ بیٹھا ہے ۔۔۔ دل کی دھڑکن تو تیز ہو گی نا . " وہ محظوظ ہونے والے انداز میں بولا تھا ۔ زمزمہ کا چہرہ غصہ سے لال سرخ ہوا تھا۔ اس کا دل چاہا جیزین کے سر پر کوئی چیز اٹھا کر دے مارے۔

" آپ خاموش ہی رہیں ۔۔۔۔" غصہ کی اٹھتی لہر دبا کر اس نے بڑی سنجیدگی سے جیزین کو مشورہ دیا پھر "ہونہہ " کہہ کر سر جھٹکا۔ سارا ڈر اور خوف اب غصہ کی صورت میں اس پر احاطہ کرنے لگا تھا۔

" ابھی تو تم میری منتیں کر رہی تھی کہ مجھ سے بات کر لیں ۔۔۔" وہ اس پر چوٹ کرتا ہوا بولا۔

"مجھ سے غلطی ہو گئی تھی ۔۔۔ معاف کر دیں ۔" وہ عاجز آ کر بولی۔

" ایسی غلطیاں کرنی ہی نہیں چاہیے کہ انسان کو بعد میں معافی مانگنی پڑے۔ " وہ طنزیہ بولا۔

"آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ؟" وہ سلگتے لہجے میں بولی۔

"پہلی بات تو یہ کہ میں غلطیاں نہیں کرتا ۔۔۔۔اور دوسری بات یہ کہ میں معافی نہیں مانگتا  ۔" جیزین کی سنجیدگی سے کہی گئی بات پر وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔

" آپ معافی نہیں مانگتے ۔۔۔۔۔مگر کبھی کبھی معافی مانگنی پڑ جاتی ہے ۔ " وہ پلین کی ونڈو سے باہر نظر آتے بادلوں کو دیکھتی مدہم آواز میں بولی۔

" میں جیزین ہوں ۔۔۔۔ معافی نہیں مانگتا۔۔۔۔لیکن معاف کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔!" وہ بےنیازی سے بولا۔

"اور میں زمزمہ ہوں ۔۔۔۔میں معاف نہیں کیا کرتی ۔ کوئی میرا دل دکھائے میں اس پر اپنے دل کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیتی ہوں۔ " وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ جیزین ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا تھا ۔ اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس نے گہری سانس لے کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ 


Post a Comment

Previous Post Next Post