Meri Ek Kahani Written By Maria Farooqi

Meri Ek Kahani Written By Maria Farooqi

Meri Ek Kahani Written By Maria Farooqi

میری ایک کہانی

ازقلم (ماریہ فاروقی)

 

میری ایک دوست تھی بہت پیاری سی لڑکی شکل سے  ہی نہیں  سیرت سے بھی بہت پیاری میرا خیال رکھنے والی تھوڑا سا بھی بیمار ہو جاتا  اس کی جان نکل جاتی تھی کئی مرتبہ پوچھتی دوائی کھائی آرام کرو پلیز باہر مت جانا زیادہ کام نہیں کر نا  گھر پر ہی رہنا وغیرہ وغیرہ مجھے اس کا خیال رکھنا اچھا لگتا تھا کبھی کبھی تو میں اسے کہتا میرے پاس ہی رہ لو آکر جو  تمہیں میری اتنی فکر ہوتی ہے. اور وہ ہمیشہ کہتی کوئی حال نہیں ہے فضول باتیں کرنے کی بجائے اپنا خیال کرلو. اچھی دوست تھی بہت کچھ بتاتا تھا اسے میں جوانی تھی شوق بھی جوان تھے اور عروج پر تھے کچھ اچھی شکلوں صورت کا کمال تھا کہ جب نئی گرل فرینڈ یا کوئی لڑکی دوست بناتا  تو اسے بتاتا اور وہ ہمیشہ چڑ جاتی تھی  کبھی کبھی تو بہت غصہ بھی کرتی اور میں ہنستا وہ غصے والے انداز میں طنز  تک کردیتی تھی  مجھے اکثر اوقات اس کی باتوں سے محسوس ہوتا وہ پسند کرنے لگ گئی ہے اور میں ایسا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ محبت میں دھوکا کھایا تھا اور اب دینا نہیں چاہتا تھا. وہ بہت نیک سیرت لڑکی تھی  اس لیے میں نے بات کرنا چھوڑ دیا  اس کے پوچھنے پر میں کہتا زندگی بہت مصروف ہے وقت نہیں ملتا ہے اور جب کبھی وہ فون کرتی میں صرف اس کے سوال کا جواب دیتا شاید  اُسے محسوس ہو چکا تھا کہ میں بات کرنا نہیں چاہتا اس لیے اس نے بات کرنا چھوڑ دی اس سے میری بالکل بھی بات نہیں ہوتی تھی اسی دوران میں امریکہ آ گیا زندگی بہت مصروف ہو گئی. ان سالوں میں اس کا کبھی خیال بھی نہیں آیا  میں شاید  اُسے بھول ہی چکا تھا  مگر اسے میں نہیں بھولا ہوں گا یہ مجھے پتا تھا.

گھر والوں سے جب بات ہوتی تو کہتے آ جاؤ اب تمہاری شادی کرنی ہے  اور میں ہمیشہ انکار کردیتا یا ٹال دیتا مگر آج امی رونے لگ گئی وہی ایموشنل بلیک میلینگ جو شادی کروانے کے لیے اکثر مائیں کرتی ہیں.

میں نے کہا جی ڈھونڈ لے تبھی میری بہن بولی وہ لڑکی جو بھائی اپکا بہت خیال رکھیں آپ کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا دھیان رکھے  میری بہن کی  بات پر مجھے وہ یاد آئی ایک عرصے کے بعد اس کا خیال آیا آنکھیں بند کر کےسوچنے لگا وہ تمام وقت تمام پہلو...... تبھی خیال آیا وہ مجھ سے محبت کرنے لگ گئی تھی ایک جذبے کے تحت وہ یہ سب کرتی تھی وہیں اپنے خیال کو جھٹکا اور کام کے لیے چلا گیا کچھ دن بعد پاکستان آیا اور ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا وہ ڈاکڑ بن رہی تھی بن گئی کہ نہیں یہ نہیں جانتا تھا اچانک اس پہ نظر پڑی جو بالکل اُسی لہجے میں میری امی سے بات کر رہی تھی جس لہجے میں مجھ سے بات کرتی تھی وہ اور زیادہ پیاری ہو گئی تھی یا شاید میں نے اسے بہت عرصہ بعد دیکھا تھا. وہ ہمیشہ کی طرح کالے رنگ میں حسین لگ رہی تھی یا شاید اُس پر کسی محبت نے رنگ چڑھا دیا تھا ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اس نے  میرے سامنے آکر اُسی انداز میں سلام کیا وہ ہمیشہ ہی بہت خوب صورت انداز میں سلام کرتی تھی اس کے بات کرنے کا انداز کچھ اور ہوتا تھا اور  سلام کرنے کا انداز کچھ اور سرسری سی بات ہوئی مگر اس کے چہرے پر چھائے وہ رنگ مجھے بہت سی باتیں سوچنے پر مجبور کر رہے تھے میں نے اسے کہا ہم آرام سے مل کے بات کر سکتے ہیں تو اس نے ایک جگہ بتائی جہاں وہ شاید پڑھاتی تھی کہا کلاس کے ایک گھنٹے پہلے آ جانا میں وہی ہوں گی میں مان گیا کیونکہ میں جانتا تھا وہ کبھی ملنے کے لیے کسی پبلک پلیس پہ نہیں آئے گی. منگل کے روز میں اسے ملنے گیا آج بھی وہ ویسے ہی لگ رہی تھی جیسے ہسپتال میں حال واحوال کے بعد  کچھ اور باتیں ہوئی میں نے کچھ شوق انداز میں پوچھا کون ہے وہ جس کی وجہ سے تم پر اتنے رنگ چھا گئے؟ یہ محبت ہی ہے یا پھر کوئی اور راز ہے؟ کس سے محبت ہوگئی میڈم کو؟ وہ شرما گئی اور مسکراتے ہوئے بولی! میرا نکاح ہو چکا ہے اور دو ماہ بعد میری شادی ہے میں نے اُسے مبارک دی اور پھر ہمارے درمیان مختلف باتیں ہونے لگ گئی. باتوں باتوں میں میں نے اس سے پوچھ لیا  کہ جذبات تو تمہارے دل میں میرے لیے بھی تھے تبھی تو تمہیں برا لگتا تھا میرا لڑکیوں سے بات کرنا اُن سے فری ہونا انہیں کالز کرنا وغیرہ وہ حیران ہوئی مگر  وہ سکون سے جواب دیتے ہوئے بولی!

میں تمھارا خیال رکھتی تھی کیونکہ دوستوں کا فرض  ہوتا ہے اپنے دوستوں دوستی کا پہلا اصول ہی اپنے کا خیال رکھنا ہوتا ہے انہیں اُن  غلط کاموں سے روکنا ہوتا ہے جو ان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہوں. اور باقی رہی جی ایف والی  اور فری ہونے والی بات تو تم  کسی کے ساتھ بھی سنجیدہ نہیں تھے. اور اگر کوئی تمہارے سنجیدہ ہو جاتی  اور تم  اُسے چھوڑ دیتے  تو اُس لڑکی کا دل دکھتا  اور صرف اس لیے تمہیں کہتی تھی چھوڑ دو کیونکہ کیسی کا دل دکھانا گناہ ہے اور میں تمہیں گناہ نہیں کرنے دینا چاہتی تھی اگر تمھارے نزدیک یہ جذبات محبت تھے تو میں اعتراف کرتی ہوں کہ ہاں مجھے تم سے محبت تھی مگر تمھاری سوچ والی محبت نہیں فرض کی ادائیگی والی محبت میرے مطابق والی محبت  اتنا کہہ کہ اٹھ گئی میری کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے میں چلتی ہوں کہہ کر وہ چل دی اور چلتے چلتے وہ مجھ سے دور ہوگئی اور میں  کچھ وقت بعد گھر واپس آ گیا.

اتنا بڑا بیسنس مین ہونے کے باوجود اپنی ذاتی سوچ کی وجہ سے میں نے ایک بہترین دوست کو کھو دیا

اُسکے اُس دن چلے جانے کے  بعد مجھے احساس ہوا کہ مرد کی زندگی میں ہر عورت وہی محبت کرنے نہیں آتی جو ہم مرد سوچتے ہیں. کچھ عورتیں ہم جیسے بگڑے ہوئے اپنی سوچ کے کھوکھلے محل تعمیر کرنے والوں مردوں کو سدھارنے کے لیے بھی آتی ہیں

 مگر افسوس میں نے اسی دوست کو کھو دیا

اور اس دن کے بعد سے نہ میں کبھی کسی لڑکی سے دوستی کر سکا اور نہ اُسے بھول سکا.


Post a Comment

Previous Post Next Post