Hasil E Zeest Complete Novel By Noreen Noori
Hasil E Zeest Complete Novel By Noreen Noori
آپ ہٹیں میں دیکھتا ہوں
راجہ صاحب
وہ ڈاکٹر راجہ سے ان کی سٹیتھو سکوپ کو پکڑے گھوما
تھا تو جیسے وقت رک گیا تھا ڈاکٹر خضر ارسلان ہلنے کے قابل نہیں رہا تھا اس کے
ہاتھ سے سٹیتھو سکوپ گرا تھا اور وہ خود برف کے جسمے کی طرح ساکت تھا اس نے مشینوں
میں جکڑے ہوئے وجود کو دیکھا تھا کچھ آنسو تھے جو آنکھوں سے بہہ کر چہرے پر پھسل
رہے تھے ایک دو اور تین اور پھر آنسوں کی لڑیاں تھیں جو رک نہیں رہی تھیں کتنی
آوازیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں
مانوس آواز
کانوں میں رس گھولتی شہد
جیسی میٹھی آواز
میں نے یہ نہیں کھانا آپ
سونیا سے کہیں نہ میری پسند کی چیز منگوائیں
امی کہہ رہی ہیں آپ سے
سپارہ پڑھا کروں تو پھر کب آؤں ؟
انکل ہیں ناں وہ سامنے
دوکان والے ،،،مجھے گھور رہے تھے ۔۔
آج امی نے بہت ڈانٹا خضر
بھائی ،،،مجھے یہ پینٹنگ تو بنا دیں ۔۔۔۔
اور انکار پر وہ دو پونیاں
کیے منہ پھیلا کر معصومیت سے چہرہ غصے سے پھیرے کھڑی تھی ۔۔
میں نہیں بولتی آپ سے
۔۔۔۔جائیں ۔۔۔
اور پھر اس کی ہنسی کھنکتی
زندگی جیسی ہنسی جس کے بارے میں خضر ارسلان کہا کرتا تھا۔۔
اگر کسی بے جان وجود کے پاس بھی نایاب حسن کھڑی ہنسے
گی تو وہ بھی خدا سے جینے کی ضد کرنے لگے گا۔۔۔
نایاب حسن!
صرف یہ لفظ تھے جو
اُسنے ادا کیے تھے نایاب حسن کی کھلکلاہٹ
مرجھاے پودوں کو شاداب کرتی ہے۔۔
ہاتھ نہیں لگانا اس کو ڈاکٹر راجہ پرویز اور ایک لیڈی
ڈاکٹر تہمینہ سمیت نرسز بھی اتنی اونچی آواز پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے تھے
نرسز نے دوبارہ نایاب حسن کو شآرٹس دینے کی کوشش کی
جب خضر ارسلان شدید غم و غصے سے اس کے مشینوں میں جکڑے وجود کے پاس گیا اس نے ایک
ایک کر کے ساری مشینیں اور آلات اس سے الگ کر رہا تھا جب وہ اس کے سر سے کڑا نما آلہ اتا رہا تھا تو اسے
نایاب حسن کی آنکھوں میں شناسائی کی ہلکی سی رمق دیکھائی دی جو پل بھر میں ختم ہو
گئی تھی پھر اس نے اس لڑکی کو خود سے لگایا تھا بلکہ وہ اسے خود میں بھینچے جیسے
سب سے چھپانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا اس کے سر سے اتار کر دور رکھی الیکٹرک
شاک دینے والی مشین سے اسے آج خوف محسوس ہو رہا تھا حالانکہ اس مشین کا استعمال وہ
خود بھی اکثر مریضوں پر کر چکا تھا وہ رو
رہا تھا تڑپ رہا تھا اور جب ہی وہ یک دم اٹھا تھا اور ساتھ ہی اس نے اپنے ساتھ
لگائے اس وجود کو بھی کھڑا کیا تھا جو بے حد کمزوری کے باعث اپنے قدموں پر کھڑی
ہونے سے قاصر تھی ۔۔
ڈاکٹر ! ایسے مریض خطرناک
ہو سکتے ہیں آپ چھوڑ دیں ہم چھوڑ آتے ہیں انہیں
چپ۔۔
ایک دم چُپ
اُسنے ادھر ادھر پھر کُچھ
سوچ کر اپنے کندھے کے سہارے کھڑی نایاب حسن کو پاس پڑی وہیل چیئر پر بٹھایا اور وہاں کھڑے ڈاکٹرز اور نرسوں کے نرغے سے
نکال کر لے گیا ۔۔
وہ ڈاکٹر تھا ڈاکٹر خضر
ارسلان ہر قسم کے کیس کو ٹریٹ کرنے والا ۔۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر خضر ارسلان۔۔۔
لیکن اس لڑکی کے لیے آج بھی وہ وہی خضر تھا جو نایاب
حسن کی چھوٹی سی تکلیف پر ہزاروں آنسو بہا سکتا تھا ۔
جو نایاب حسن کے لیے اس
کے گھر والوں سے لڑ سکتا تھا ۔
جو اپنے بہن بھائیوں سے
نایاب حسن کے لیے ہفتوں ناراض رہ سکتا تھا
اور جو نایاب حسن کے لیے خود کو ہار سکتا تھا
وار سکتا تھا وہ خود کو
اس پر سے۔۔
تقریبا ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر پرویز راجہ اس کمرے میں
داخل ہوئے تھے جہاں خضر ارسلان آ یا بیٹھا
تھا اسے بیڈ پر لٹائے اس کے ہاتھ تھامے نم آنکھوں سے کتنی ہی دیر سے اسے دیکھ رہا
تھا جب راجہ صاحب نے مصنوئی کھانسی سے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی لیکن ڈاکٹر خضر
ارسلان اسی طرح بیڈ کے ساتھ کرسی پر اس کا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا
ڈاکٹر یہ پیشنٹ ہمارے پاس
جب ہی خضر ارسلان نے کھا
جانے والی نظروں سے پرویز راجہ کو دیکھا تھا تب انہوں نے اپنا ہاتھ خضر ارسلان کے
کندھے پر رکھ کر تھوڑا دباؤ ڈالا ،، یہ ایک طریقے کی تسلی تھی جو انہوں نے
خضر کو دی تھی۔ یہ ہمارے پاس پچھلے دو سال
سے ایڈمٹ ہیں ڈاکٹر خضر۔۔۔
کوئی ینگ سی لیڈی تھی جو خود کو ان کی دور کے رشتہ
دار بتاتی تھی وہ اسے ہماری فاؤنڈیشن میں چھوڑ گئی تھی اس کے بعد سے یہ مکمل خاموش
ہے کھانا بھی بس برائے نام کھاتی ہیں جاگتی رہتی ہیں ان سلیپنگ پلز دے کر سلایا
جاتا ہے،،لیکن کبھی کبھی تو یہ اس انداز سے روتی ہیں جیسے کسی میت پر رو رہی ہوں
،،،،یہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کر چکی ہیں ۔۔اور جب ہم نے ان کے پوری
باڈی کے ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ یہ بول سکتی ہیں تب ہی ہم نے ان کو شاکس دینے
کا فیصلہ کیا تھا ،،
جب آپ پچھلے سال ہمارے
ہاسپٹل وزٹ کے لیے آ لئے تھے تب بھی یہ ہمارے پاس تھیں ،،،
ڈاکٹر اگر ہمیں پتہ ہوتا
تو ہم تبھی آپ کو بتا دیتے ۔لیکن ۔۔۔
لیکن کیا ڈاکٹر؟
خضر ارسلان نے سر
جھکائے اُس لڑکی کو دیکھتے سوال کیا تھا
یہ آپ کی کیا لگتی ہیں
خضر؟
خضر ارسلان نے ضبط سے سرخ ہوتی آنکھیں اٹھائی تھیں ان
میں کرب صاف ظاہر تھااُسنےلمبی سانس سینے سےکھینچی تھی۔۔۔زندگی۔۔۔ یہ میری زندگی
لگتی ہیں پرویز راجہ۔۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
Free MF Download Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ