Qaswah Complete Novel By Dua Fatima
Qaswah Complete Novel By Dua Fatima
Qaswah is a tale of cruelty, just like its name… the story of no human…but only a land…a community…a nation…Muslim nation…no other Muslim nation…but a real Muslim nation…it is a story of Kashmir…but not only Kashmir, but of every place of this world where Muslims are being treated worse than animals…
پندرہواں کیمپ تباہ ہو چکا تھا اور وہاں کے مجاہدین سولہویں کیمپ کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔جاہد اور عابر ساتھ ساتھ ہی تھے جب ان کی جیپ پر حملہ ہوا تھا۔ عابر جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا تو اسے جیپ کے پیچھے ساتھ آٹھ لمبے چوڑے بھارتی فوجی نظر آۓ۔ وہ بندوق ان کی جیپ پہ تانے خون خوار نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
”وہ یہاں آ گئے ہیں۔”، عابر کے یہ کہنے کی دیر تھی اور اگلے ہی پل اس کی جیپ میں بیٹھے چار مزید لوگوں کے ساتھ ساتھ جاہد جہانگیر بھی باہر نکل آیا تھا۔دونوں اطراف سے فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔ان کی بندوقوں پر تو سائلنسر لگا تھا پر بھارتیوں کی بندوقوں پر سائلنسر نہیں لگا تھا۔ گولیوں کی آوازيں فضا میں گونج گئی تھیں۔
عابر سمیت باقی چار لوگوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھے تھے مگر جاہد۔۔۔
اور یہ خیال ذہن میں لپکتے ہی عابر جہانگير کا حلق تک سوکھ گيا تھا۔ جاہد نے تو ابھی ابھی اپنا جیکٹ درست طریقے سے پہننے کے لیے اتارا تھا۔
اس نے گھبرا کر منہ جاہد کی طرف موڑا ہی تھا کہ عین اسی وقت اسے گولی چلنے کی تیز آواز سنائی دی تھی اور اس نے جاہد کے جسم کو بری طرح سے جھٹکا کھاتے دیکھا تھا۔ اس کا سر چکرا کر رہ گيا تھا۔ جاہد کا پورا جسم گھٹنوں کے بل گرتا زمین بوس ہو چکا تھا اور وہ پتھر کا بت بنا اسے ساکت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اور پھر اگلے ہی لمحہ وہ دیوانہ وار اس کی طرف لپکا تھا۔ آنکھوں سے تواتر کے ساتھ آنسو بہنے لگے تھے۔ مگر وہ ان آنسوؤں سے بے خبر تھا۔ جاہد کا جسم بغیر کسی جنبش کے فرش پر پڑا تھا اور وہ بڑا بھائی پاگلوں کی طرح اس کا نام پکارتا ہوا چلّا رہا تھا۔وہ اس کے چہرے کو تھپکتا کسی پاگل کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔
وہاں کوئی جنبش نہیں تھی۔ اس کا جسم سرد پڑتا جا رہا تھا۔ دل پہ پتھر رکھ کر اس نے آہستہ سے ہاتھ اس کی نبض پر رکھا تو اگلے ہی پل وہ جاہد کو گود میں اٹھاۓ اندھا دھند جیپ کی طرف بھاگا تھا۔ جاہد کی نبض چل رہی تھی۔ اس کا سانس چل رہا تھا۔ وہ مرا نہیں تھا۔ جاہد کے پیٹ پہ گولی لگی تھی اور پیٹ سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔
ان سات آٹھ بھارتیوں کو تو ویسے بھی وہ لوگ جہنم واصل کر چکے تھے۔ باقی سب نے اسے اطمینان سے جانے کو کہا تو وہ بھیگی آنکھوں سے مشکور نگاہوں سے انہیں تکتا جاہد کو ہسپتال لیے بھاگا۔ ان کا مشن تو ویسے بھی پورا ہو چکا تھا۔ دوسرے کیمپ تک تو ویسے بھی وہ لوگ مدد کرنے ہی جا رہے تھے۔
وہ جب ہسپتال پہنچا تو جلدی سے جیپ سے باہر نکل کر پیچھے والی سیٹ سے جاہد کو گود میں اٹھاۓ وہ اندھا دھند ہسپتال کی اور بھاگا تھا۔ دل کی دھڑکنیں اتار چڑھاؤ کر رہی تھیں۔ جاہد کو روم میں لے جایا گيا تو بے دم سا ہو کر وہاں نشست پہ بیٹھا سر دونوں ہاتھوں میں دیئے بری طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتنی ظالم تھی یہ زندگی۔۔۔موت سے بھی زیادہ! کیا کیا دکھاتی تھی!
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ