Hikmat E Ilahi Complete Novel By Tayyaba Imran
Hikmat E Ilahi Complete Novel By Tayyaba Imran
’’آپ کے خیال میں اللہ تعالیٰ
اور انسان کا کیسا رشتہ ہونا چاہیے؟؟‘‘ نجانے کیا سوچ کر اس نے یہ میسج ٹائپ کیا
تھا۔
’’خوبصورت۔۔۔‘‘ اب کی بار دوسری طرف سے
چند لمحوں بعد رپلائی آیا تھا۔
’’ مطلب؟؟؟‘‘ اسے اس کے یک لفظی جواب کی
خاص سمجھ نہیں آئی تھی۔ دوسری طرف سے کوئی رپلائی نہیں آیا۔
’’آپ کے خیال میں اللہ تعالیٰ اور انسان
کا جو رشتہ ہے وہ خوبصورت نہیں ہے۔‘‘ دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے
دوبارہ میسج کیا۔
’’ نہیں میرے خیال سے اللہ تعالیٰ اور
انسان کے درمیان اگر صرف سمپل رشتہ ہےتو وہ خوبصورت نہیں ہے ، وہ صرف ضرورت کا
رشتہ ہے اور ضرورت کے رشتے خوبصورت نہیں ہوتے۔ ‘‘ اس کا جواب پڑھ کر وہ ایک لمحے
کے لیے حیران ہوئی تھی۔
’’ اور اگر اللہ اور انسان کے درمیان
دوستی کا رشتہ ہو پھر ؟؟؟‘‘
’’ وہ اچھا رشتہ ہوتا ہے مگر میرے نزدیک
خوبصورت وہ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’ تو پھر آپ کے نزدیک خوبصورت رشتہ کون ساہے؟؟‘‘
’’ محبت کا۔۔۔میرے نزدیک سب سے زیادہ خوبصورت رشتہ محبت
کا ہے اور میرے خیال سے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان محبت ہی کا رشتہ
ہونا چاہئے۔‘‘ اس کے اس جواب نے عنایہ کو مزید پریشان کیا تھا۔
’’ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟؟ آپ کے مطابق
کیا اللہ اور اس کے بندے کے درمیان جو سمپل رشتہ ہوتا ہے اس میں محبت نہیں ہوتی؟؟‘‘ اس کی باتوں سے وہ اچھی خاصی کنفیوز ہو گئی تھی۔
’’ نہیں اس میں محبت نہیں ہوتی۔ میں آپ
کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس میں صرف ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘
’’ تو کیا آپ مجھے ضرورت اور محبت کے درمیان
فرق بتا سکتے ہیں؟؟؟‘‘ اس نے الجھتے ہوئےپوچھا تھا۔اس کے میسج پڑھ کر وہ واقع ہی
پاگل ہونے والی تھی۔ آخر وہ شخص ایسا کیسے کہہ سکتا ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان
محبت نہیں ہوتی۔
’’ جی بالکل۔ جب آپ کا اللہ تعالیٰ کے
ساتھ ضرورت کا رشتہ ہوتا ہے تو آ پ اس کے آگے صرف تب سر جھکاتے ہیں جب آپ کواس سے
کوئی کام ہو، جب آپ کو کوئی چیز اس سے
درکار ہو، جب آپ کی کوئی خواہش پوری نہ ہو رہی ہو یا پھر جب آپ کے کسی اپنے کی
زندگی ،موت کا سوال ہو لیکن اگرآپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا رشتہ ہو تو آپ
کو اس کے آگے سر جھکانے کے لیے ان سب تکلفات کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس صورت میں
تو یہ سب چیزیں آپ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔آپ اس کی مثال انسانوں کے
درمیان محبت ہی سے لے لیں۔ جب ہم کسی انسان سے محبت کرتے ہیں تو اس سے ملنےکے لیے
ہر وقت بیتاب رہتے ہیں ، بہانے بہانے سے ہمیشہ اس کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن
اگر ہمیں کسی سے محبت نہ ہو تو ہم صرف ضرورت کے وقت ہی اس سے ملتےہیں۔ اس صورت میں
ہمیں اس سے کوئی خاص انسیت نہیں ہوتی ، ہمارے لیے وہ بس ہماری ضرورت پوری کرنے کا
ایک ذریعہ ہوتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔آئی ہوپ کہ میری بات کچھ حد تک آپ کی
سمجھ میں آگئی ہو۔ ‘‘ دوسری طرف سے پھر
رپلائی آیا تھا۔
’’ ہمم سئی۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ سے ہرچیز
سے بڑھ کر محبت کرنا تو شرطِ ایمان ہے، تو پھر اگر کسی کا اللہ سے صرف ضرورت
کارشتہ ہے ، یعنی اگر وہ صرف اپنی ضروریات کے لیے اللہ کے آگے سر جھکاتا ہےاور اس
سے ملتا ہے تو آپ کے مطابق وہ ۔۔۔۔؟؟؟‘‘
اس سے آگے اس سے لکھا نہیں گیا تھا، اسے اس کی بات سمجھ میں آ گئی تھی لیکن اس کے
دماغ میں ایسی بہت سی چیزیں تھیں جو اسے الجھا رہیں تھیں۔ اسے یہ بات الجھا رہی تھی
کہ اگر وہ یہ کہتا ہے کہ اپنی خواہشات یامشکلات حل کرنے کے لیے خدا کے آگے سر
جھکانا ضرورت ہے تو پھراس طرح تو بہت سے لوگ تو صرف اس سے ضرورت کے تحت ہی ملتے ہیں
تو کیا وہ خدا سے محبت نہیں کرتے اور اگر وہ خدا سے محبت نہیں کرتے تو وہ ایمان کے
درجے پر کیسے فائز ہیں؟؟؟
’’ دیکھیں میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ
نہیں کہنا چاہتا کیونکہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ، مجھے نہیں پتہ کہ وہ
لوگ جو کبھی کبھی نماز پڑھتے ہیں وہ ضرورت کے تحت پڑھتے ہیں ، اللہ سے خوف کھا کے
پڑھتے ہیں یا پھر اللہ کی محبت میں پڑھتے
ہیں اور نہ ہی میں ان کی نیت سے واقف ہوں جو میں یہ کہوں کہ وہ لوگ دین اسلام سے
باہر ہیں لیکن میرے نزدیک، میرے نظریے کے مطابق تو محبت یہی ہے کہ اگر آپ اللہ سے
محبت کرتے ہیں تو آپ کا دل اس سے نہ ملنے کے سو سو بہانے نہیں تلاش کرے گابلکہ آپ
کا دل منتظر رہے گا کہ کب نماز کا وقت ہو اور کب آپ اپنے رب سے ملاقات کریں، اگر
آپ کو سچ میں اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو آپ اس کو ہر معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت
دیں گے، اس کے ہر احکامات کو اپنی زندگی میں لاگو کریں گے اور پھر اس پر سختی سے
عمل کریں گےکیونکہ وہ احکامات آپ کے محبوب کے ہوں گے ان کو ماننا آپ پر فرض ہو گا،
کہتے ہیں نا کہ محبت میں ہر چیز فرض ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اگر ہم پر نماز
فرض کی ہے ، روزہ، زکوٰۃ ، حج اور اس طرح کے اور بہت سے احکامات فرض کیے ہیں تواس
کا مطلب اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں ہم پر بہت مان
سے فرض کی ہیں، وہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس سے محبت کرے اس کو سب سے زیادہ
اہمیت دے بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر دوسری مخلوقات پر
فضیلت دی اور آپ کو پتہ ہے کہ دین اسلام میں آنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود
سے سب سے زیادہ محبت کرنا کیوں ضروری کیا
ہے؟؟ ‘‘ اس نے سوال کیا تھا۔ عنایہ ہر چیز
سے بالکل بےخبر ہوکراس کا میسج پڑھنے میں مصروف تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے
کسی نے اس کو سحر میں جکڑ لیا ہو ، اس کو اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ باتیں بےحد اچھی
لگ رہیں تھیں، میسج ختم ہونے پر اور اس کے سوال کرنے پر اسے یوں لگا تھا کہ جیسے
اس کا دل رکنے والا ہو، وہ ابھی اللہ تعالیٰ کے متعلق مزید بہت کچھ سننا چاہتی تھی،
وہ چاہتی کہ وہ لکھتا رہے اور وہ اسے پڑھتی رہے۔
’’ کیوں؟؟ اس نے فوراً ٹائپ کیا۔ دوسری
طرف والا شخص مسکرایاتھا۔ اسے تسلی ہوئی تھی کہ اس کی باتیں اسے بور نہیں کر رہیں،
ورنہ دین کی باتیں آج کے دور میں کون کرتا تھا، نجانے کیوں لوگ اللہ اور اس کے
رسول کا نام تو عزت سےلیتے ہیں، یہ تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول سے سب
سے زیادہ محبت کرتے ہیں مگر اس کی باتیں کرتے وقت ان کے دل تنگ ہونے لگتے ہیں ،
انہیں یوں لگتا ہے جیسے ماحول اسلامی ہونے لگا ہے، نجانےوہ اپنی نارمل لائف میں اس کو شامل کیوں نہیں کرلیتے،کیونکہ جن لوگوں سے محبت کی جاتی ہے ان
کا ذکر تو ہمیشہ زبان پر رہتا ہے، انسان جہاں پر بھی جاتا ہے صرف اپنے محبوب کے
متعلق ہی تو باتیں کرتا ہے تو پھرہم اللہ
سے اور اس کے رسول سے محبت کے دعویدار ہو کر ہر وقت انہی کی باتیں کیوں نہیں
کرتے۔ہم دو تین گھنٹے بیٹھ کر سارے جہان کی غیبتیں اور فضول باتیں تو کر سکتے ہیں مگر
دن میں سے وہی دو تین گھنٹے ہم اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کے لیے نہیں نکال
سکتے ۔ آخر کیوں؟؟ کیا اللہ تعالیٰ کی باتیں کرنا، اس کی نعمتوں کا شمار کرنا اتنا
مشکل ہے؟؟ یا پھر ہمیں سچ میں اللہ سے محبت ہی نہیں؟؟
‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہم سے ستر ماوں سے
زیادہ محبت کرتے ہیں ، ان کی محبت ہمارے لیے بےمثال ہے، ہم سے ان جیسی محبت کوئی نہیں کر سکتا، دنیا میں کوئی بھی نہیں ،
وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہیں جو ہماری خطا پر بھی ہم سے محبت کرتے ہیں ، ہمیں یقین
دلاتے ہیں کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ ہے یا نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں ہمیشہ ، تمہارے
اچھے میں بھی اور برے میں بھی اب یہ تم پر ہے کہ تم صرف برے وقت میں میرا ساتھ
محسوس کرو یا اچھے میں اور پھر جب اللہ تعالیٰ
ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں تو پھریہ
ان کا بھی حق ہے کہ ہم ان سے ایسی محبت کریں ،جیسی ہم کسی اور سے نہیں
کرتے، ہم ان کو ایسی اہمیت دیں جیسی ہم اس دنیا میں موجود کسی اور کو نہیں دیتے،
اگر وہ ہم سے ہماری زندگی میں موجود باقی محبت کرنے والے تمام لوگوں سے زیادہ محبت
کرتےہیں اور ایک منفرد اور انوکھے اندز میں
اپنی محبت ہمیں دکھاتے ہیں تو ہمیں بھی
چاہیے کہ ہم بھی جتنے لوگوں سے اپنی زندگی میں محبت کریں ان محبتوں سے اوپر اپنے
رب کے لیے اپنی محبت کو رکھیں۔ آپ اس کی مثال بھی ہم جیسے انسانوں ہی سے لے سکتی ہیں
کیونکہ ہم انسان ہیں ہم باتوں سے تو ان چیزوں
کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتے لیکن اگر ہم ان چیزوں کو اپنی زندگی میں لاگو
کر کے دیکھیں تو ہمیں زیادہ اچھے سے سمجھ آتی ہے تو میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ اگر
ہم اس کو اپنی ہی زندگی میں لاگو کر کے دیکھیں تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم جس سے
بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، جس کی ہر خواہش کو ، ہر بات کو اہمیت دیتے ہیں تو اندر
سے ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمیں یوں ہی اہمیت دے، ہم سے یوں ہی محبت کرے،
اگر ہم اس کو ہر چیز سے اوپر رکھتے ہیں تو وہ بھی ہمیں ہر چیز سے اوپر رکھے۔ اللہ
تعالیٰ کا معاملہ بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی ہے، اگر وہ ہم سے بےتحاشا اور ہماری زندگی
میں موجود ہر انسان سے زیادہ محبت کرتا ہے
تو وہ بھی ہم سے یہی توقع رکھتا ہےکہ ہم اس کو اپنی زندگی میں موجود ہر انسان سے زیادہ
اہمیت دیں۔ ‘‘ وہ مسکرا کر ٹائپ کر رہا
تھا، اس کے سینڈ کا بٹن کا دباتے ہی دوسری طرف عنایہ نے فوراً سے نہایت بیتابی کے
ساتھ میسج پڑھنا شروع کیا تھا اور جیسے جیسے وہ پڑھتی جا رہی تھی ایک دفعہ پھر سے
سحر میں جکڑتی جا رہی تھی اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ اس کے بتانے کاانداز
ہے جو وہ یوں مسحور ہو رہی ہے یا پھر اللہ تعالی ٰ کی باتیں جو اسےسحر زدہ کر رہی
ہیں۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
Free MF Download Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ