Dil Diyan Gallan Complete Novel By Ghazal Ibrahim
Dil Diyan Gallan Complete Novel By Ghazal Ibrahim
رخصتی کا وقت ہوا تو عریش
نے ایودہ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔
"مانا کہ تم واپس اسی گھر
میں جا رہی ہو جہاں پیدا ہوئی۔
"مگر کمر اور زندگی دونوں
چینج ہو رہی ہے۔۔۔۔
تھوڑا سا رو لو نہیں تو
جھوٹ موٹ کے آنسو بہا لوں۔۔۔
"مجھ رونا نہیں آرہا تو کیا
کروں۔۔
"اور میں کیوں رؤ روئے میرے
دشمن۔
"ویسے بھی شادی کے بعد لڑکیاں
اپنے اصلی گھر جاتی ہے۔۔۔۔
اور اصلی گھر جانے پر کیسا
رونا" پاگل ہیں وہ لڑکیاں جو خواہ مخواہ کے ٹیسوے بہا کر دس ہزار کے میک اپ
کا بیڑا غرق کرتی ہے۔۔۔ میرے ابا بھائی کی خون پسینے کی کمائی یونہی آنسو میں بہا
دو۔۔
"واہ واہ،،،،،،، میں نے تو
نہیں رونا"
وہ منہ بیگاڑ کر بولی تو
عریش نے افسوسی سے سر ہلایا" میں بھی کسے امید کر رہا تھا۔
"جو لڑکی اپنی شادی کے
اپنا زبان کو سکون نہیں دے سکتی وہ ٹیسوے کیا خاک بہائے گی۔۔۔۔
"ہاں تو کیا منہ سی کے بیٹھتی۔۔۔
"اتنی دیر مجھ سے خاموش نہیں
بیٹھا جاتا۔۔
جتنی دیر اماں کی گھوری
بھری نظر مجھ پر ٹیکی رہی تب تک خاموش بیٹھ بیٹھ کر میرے جبڑے دھوکنے لگے۔
شادی کیا روز روز ہوتی
ہے۔۔۔۔ زندگی میں ایک بار شادی ہوئی اور جسکی شادی ہے وہ سکھ کا اپنی ہی شادی کا
کھانا نہیں کھا پائی وہاں بھی اماں کی گھوری چلتی رہی اور اس زیوا کی بچی نے مجھے
چیڑیا جتنے نیکے نیکے دو نوالے کھلائے۔۔۔
"اب میرا بی پی لو ہو رہا
ہے" بات سنو دو نمبر فوجی۔۔
بچی ہوئی دیگے یہاں کے ویٹرو
کو تو نہیں بانٹ دی نا" گھر پر بھی بجھاوئی کہ نہیں۔
"اگر مجھے میری شادی کا
کھانا نصیب نہ ہوا نا تو دیکھنا" پھر سے نئے سرے سے رخصتی کروا کر تم لوگوں
کا خرچا کرواؤ گی۔۔۔۔ وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کرتی بولی۔۔۔ کہ سب نے اسکی بات پر
قہقہے لگائے۔۔ جبکہ زوہران اور عریش کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔
"جبکہ ساتھ چلتے زیدان نے
اسے ایک گھوری سے نواز جسے وہ دیکھانا بھی گوار نہیں کر رہی تھی تو ڈرتی کیسے"
یہیں نمونہ پیس میرے نصیب
میں آنا تھا۔۔۔ زیدان نے ہلکی آواز میں بڑبڑا کر کہا جو زہاد اور سفوان نے آسانی
سے سن لیا اور زور زور سے قہقہے لگا اٹھے کہ وہ خجل ہو گیا۔۔
خدا کے لیے ایودہ کچھ دیر
کے لیے اپنی فراٹے مارتی زبان بند کر لو نہیں تو چھوٹی مامی نے سن لیا تو یہیں
جوتوں سے پیٹنا شروع کر دے گی۔۔۔۔ زیوا نے دانت پیس کر اسے غصے سے کہا اور جا کر
اسے زیدان کی گاڑی میں بیٹھا دیا" وہ
محاذ اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°
"اسے لا کر زیدان کے کمرے
میں بیٹھا دیا" جو سرخ گلاب اور کیلنڈلز سے سجا ہوا تھا۔۔ جو بہت خوبصورت لگ
رہا تھا۔
زیدان ابھی نہیں آیا
تھا" اسنے اپنا موبائل اٹھا کر زوہران کو کال کی کچھ ہی دیر میں عریش اور وہ
اسکے سامنے حاضر تھے۔۔۔۔
"جبکہ آئمہ، نگین، اور زیوا
اسکے سر پر کھڑی گھور رہی تھی کیونکہ وہ ریوتی دولہنو کی طرح بیٹھنے کے بجائے پیچھے
گول تکیہ سے ٹیک لگا کر ٹانگیں لمبی کرکے بیٹھی تھی۔۔ زوہران اور عریش کے آنے پر
بھی اسکی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا۔
"یہ کون سا طریقہ ہے بیٹھنے
کا" کم از کم دولہنو کی طرح آرام سے بیٹھ جاؤں" زوہران نے اسے گھور کر
کہا'
"دماغ چل گیا ہے کیا
تمہارا۔۔۔۔
اسٹیج پر ایک ہی پوزیشن
پر بیٹھ بیٹھ کر میری کمر اکڑ گئی اوپر سے یہ دس کلو کا زیوارت۔۔۔ تم دلہن بنو تو
تمہیں کچھ پتا ہوں۔۔ بس تم لوگوں کا کیا ہے۔
پینٹ کوٹ پہن کر ٹیشن گری
کرتے لیکچر دینا آتا ہے بس۔۔۔۔
"اب تم لوگوں مجھے زیادہ
آنکھیں نا دکھاؤ۔۔۔
میری بوکھ سے حالت خراب
ہے۔۔
جا کر میری شادی کا کھانا
لے آؤ۔
"مجھے بہت بوکھ لگی ہے"
اسنے زوہران کو جھڑک کر
آڈر دیا"
دماغ ٹھیک ہے لڑکی تمہارا
اماں نے تمہیں جوتے مارنے ہیں۔۔۔۔
زوہران نے اسے ڈپٹتے ہوئے
کہا جبکہ باقی سب انکی نوک جھونک سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔
"کس لیے مارے گی" اب
میں اپنے سسرال آ گئی ہوں" اماں کا کیا کام میرے سسرال میں" یہاں میں جو
مرضی کروں۔۔
میری ساس جانے میں
جانو" اماں حضور کو بول دینا آپ کی ڈیوٹی ختم" ویسے بھی تم بھول رہے ہوں
بارات والے دن بھی لڑکی کا کھانا' اسکے رخصت ہو جانے کے بعد آتا ہے۔
"ابو جی نے دو تین دیگ تو
بھجوائیں ہوگی۔۔۔۔
جو پوری سوسائٹی میں بھی
بانٹے گے۔۔۔
جاؤ جا کر میرا حصہ لے کر
آؤ جاؤ شاباش۔۔
"وہ حکم دیتی دوبارہ لیٹ
گئی"
"اسے پہلے عریش دانت
پیس کر اسے سنتا" زوہران اسے روک کر بولا" یار وہ سڑا ہوا پرفیسر اسی
قابل ہے چل اسکے لئے کھانا لاتے ہیں۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ