Jo Tu Chahay Main Raazi By Areeba Awan Episode 8
Jo Tu Chahay Main Raazi By Areeba Awan Episode 8
"پلیز میر اب اپنی ناراضگی
ختم کر لیں۔اگر آپ نے اپنی ناراضگی ختم نا کی تو پھر میں اسی طرح بھوکی رہوں گی۔کچھ
کھاؤں پیوں گی بھی نہیں۔پھر آپکو مجھے معاف کرنا ہی پڑے گا۔"
پیاری کی بات پر میر نے
چونک کر سر اٹھاتے اسے دیکھا۔جو آنکھوں سے آنسوؤں صاف کرتے اپنی رو میں بولے جا رہی
تھی۔
آپ نے کھانا نہیں کھایا؟؟اسکی
بات درمیان سے کاٹتے میر نے الٹا سوال کیا۔پیاری کی چلتی زبان کو بریک لگی۔
"ثنا میں کچھ پوچھ رہا ہوں
جواب دیں۔"میر کے ماتھے پر بے شمار بِلوں کا اضافہ ہوا۔اسے اس پاگل لڑکی کی
حرکتوں پر شدید طیش آ رہا تھا۔جو اسے غصہ دلانے کا کوئ بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دے رہی تھی۔
"کب سے۔"پیاری کے نفی
میں سر ہلانے پر کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھتے دوسرا سوال پوچھا۔
"د۔دو دنوں سے۔"پیاری
نے سہمی ہوئ نگاہوں سے اسے دیکھتے بامشکل تھوک نگلا۔
"واٹ آپ پچھلے دو دنوں سے
بھوکی ہیں؟؟؟میر کا دماغ پل میں گھوما۔
"جی تو چاہ رہا ہے کہ آپکے
چہرے پر ایک کھینچ کے تھپڑ لگاؤں۔تاکہ آپکی عقل ٹھکانے آ جائے۔"
"کس نے منع کیا ہے۔اٹھائیں
ہاتھ ماریں تھپڑ۔اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال لیں۔بس بدلے میں اپنی ناراضگی ختم کریں۔مجھ
سے آپکی یہ بے رخی نہیں برداشت ہو رہی۔"
"آج معاف کر لوں کل کو پھر
آپ یہی علطی دھرا لیں گیں۔"میر نے اسکی بھیگی نگاہوں سے نظریں چراتے رخ پھیرا۔اگر
تکلیف میں پیاری تھی تو سکون میں وہ بھی نہیں تھا۔
"نہیں بلکل بھی نہیں۔میں
دوبارہ کبھی بھول کر بھی یہ علطی نہیں کروں گی۔اگر کی تو آپ مجھے جان سے مار دینا۔مگر
آج آخری دفعہ مجھے معاف کر دیں۔"پیاری نے جلدی سے کہتے پرامید نگاہوں سے اسکی
جانب دیکھا۔اسکے آنسوؤں میر کو کمزور کر رہے تھے۔اسلیے وہ پیاری کی جانب دیکھنے سے
گریز برت رہا تھا۔
اس نے خود سے جو وعدہ کیا
تھا کہ کبھی اپنی وجہ سے ثنا کی آنکھوں میں آنسوؤں نہیں آنے دے گا۔وہ آج بری طرح
ٹوٹ گیا تھا۔میر نے سختی سے لب پھینچے۔
"پلیز میر ایک آخری مرتبہ
مجھے موقع دے دیں۔میں آئندہ آپکو کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔میں مانتی
ہوں مجھ سے علطی ہوئ ہے۔پر یہ بھی تو سوچیں کے میں نے سبکے سامنے تو آپ سے بدتمیزی
نہیں کی۔"
"یہی آپکی خوشقسمتی ہے میر
ثنا سلمان۔ورنہ اگر یہ الفاظ آپ سبکے سامنے استعمال کرتیں تو پھر میں آپکی باتوں
کو سچ کر کے دیکھا دیتا۔"
چہرے پر چٹانوں جیسی سختی
لیے میر نے شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھا۔پیاری ٹھہر سی گئ۔دل بے ساختہ ڈوب کر
ابھرا۔
"ک۔کیا مطلب؟؟؟آآپ کیا
کرتے۔"پیاری نے اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔چہرے پر خوف کا سایہ لہرایا۔وہ
کیا کہنا چاہ رہا تھا۔
"اونہوں آپ علط سمجھ رہی ہیں
ثنا خانم میں آپکو اپنی زندگی بے دخل تب بھی نا کرتا۔"پیاری کے چہرے کی اڑی
رنگت دیکھ کر میر نے اسکی سوچ کی نفی کی۔
"بلکہ اس صورت میں پھر آپ
میرے نام پر قید ہو کر رہ جاتیں۔نا ہی میں آپکو اپنا بناتا اور نا کسی اور کا ہونے
دیتا۔ساری زندگی آپ اس نکاح کے رشتے میں بندھی رہتیں۔اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں بھی
ساری عمر بعیر شادی کیے گزار لیتا۔میں ضرور شادی کرتا۔مگر آپ سے نہیں بلکہ منال سے
اور پھر کوئ بھی انسان مجھے ایسا کرنے سے روک نا پاتا۔"
وہ ظالم بنا اسکی آنکھوں
میں دیکھ کر سفاکی سے کہتا اسکا دل چھلنی کر گیا۔پیاری نے پھترائ ہوئ بے یقین
نظروں سے اسے دیکھا۔آنکھیں ایک بار پھر چھلکنے کو بیتاب ہوئیں۔لب کپکپا رہے
تھے۔ضبط کا بندھن ایک بار پھر ٹوٹنے لگا تھا۔
ہاں وہ پیاری سے انتقام لینے
کی خاطر اس حد تک جا سکتا تھا۔وہ میر شہریار تھا۔جو اپنی ضد میں آ کر کچھ بھی کر
سکتا تھا۔بعیر کسی سے ڈرے،بعیر کسی کی پرواہ کیے۔وہ جو ٹھان لیتے وہ کر گزرتا۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے نیچے دئیے لنک پر کلک کریں
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ