Tanhai Ka Ashiyana Complete Novel By Umm e Malaika
Tanhai Ka Ashiyana Complete Novel By Umm e Malaika
دائیاں ہاتھ کھڑکی سے
باہر پھیلائے وہ اپنے کمرے میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے دل
کو جلا رہے تھے۔ سیالکوٹ میں برستی ہلکی ہلکی بارش اس کے ہاتھ کے ساتھ ساتھ اس کی
آنکھوں اور رخسار کو بھی شرابور کر رہی تھی۔ آنکھیں بند کیے وہ اپنے ہاتھ پر گرتے
بارش کے قطروں کا لمس محسوس کر رہی تھی۔
ماما۔۔۔۔۔ ایمان کی آواز
پر اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور اپنا گیلا چہرہ صاف کیا۔
ماما آپ رو رہی ہیں؟ ایمان
نے اپنی معصومانہ آواز میں پوچھا۔
نہیں ماما کی جان۔۔۔۔۔۔
کہتے ہوئے وہ پنجوں کے بل بیٹھ گئی۔
آپ اٹھ کیوں گئیں؟
مجھے ڈر لگ رہا تھا۔
کیوں؟ ڈر کیوں لگ رہا
تھا؟ اس نے آہستگی سے پوچھا۔ وہ خاموش رہی۔ آئشہ نے اس کے جھکے سر کو دیکھا۔
سوری مانو میں نے آپ کی نیند
خراب کر دی۔
اوفو ماما۔۔۔۔۔ آپ کیوں
سوری بول رہی ہیں؟ وہ شرارت سے بولی۔
اچھا چلو سوتے ہیں۔ آپ نے
کل سکول بھی جانا ہے۔ وہ اٹھی اور ایمان کے ساتھ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو بارش بہت پسند ہے
نا؟
ہاں لیکن اب یہ مت پوچھنا
کہ کیوں پسند ہے۔
اوکے فائن نہیں پوچھتی۔
اچھا اب سو جاؤ۔ کل سکول
بھی جانا ہے۔ آئشہ نے اس کے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ایمان نے
آنکھیں بند کر لیں۔
Sp Text
کراچی میں اس وقت گرم
ہوائیں چل رہی تھیں، سورج سروں پر دہک رہا تھا۔ وہ ایک بجے کے قریب کالج کے باہر
کھڑا علیشاء کا انتظار کر رہا تھا۔ علیشاء، گل کے ساتھ گیٹ سے باہر نکلی۔ شایان کی
نظر ایک لمحے کو علیشاء پر رکی، پھر گل پر جا ٹھہری—ایسے جیسے کسی پسندیدہ پھول کی
خوشبو دور سے ہی اپنی طرف کھینچ لے۔
علیشاء قدم قدم چلتی اس
کے قریب آ گئی۔
"خیریت ہے بھائی؟ آج آپ کیوں
لینے آئے ہیں؟" وہ اس کے سامنے آ کر رکی تو شایان کی خیالی دنیا سے واپسی ہوئی۔
علیشاء کی گھورتی نظروں نے اس کی خاموشی توڑی۔
"کیوں، نہیں آ سکتا کیا؟"
وہ قدرے سنبھل کر بولا۔
"آ سکتے ہیں، لیکن آپ آتے
نہیں ہیں۔" اس نے چبھتے لہجے میں کہا اور بائیک کے پیچھے بیٹھ گئی۔
"ہاں تو اب آؤں گا نا۔۔۔۔۔
تمہیں لینے ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی روز۔" شایان نے بائیک اسٹارٹ کی۔
"مزاق نہ کریں۔" علیشاء
نے فوراً تردید کی۔
"مزاق نہیں کر رہا۔ سچ کہہ
رہا ہوں۔"
"اور آپ کی یونیورسٹی؟"
سوال میں دلچسپی چھپی تھی۔
"میں مینج کر لوں گا، تم
فکر نہ کرو۔"
"مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے
کہ دال میں کچھ کالا ہے؟" علیشاء نے شوخی سے کہا اور شرارتی انداز میں اس کے
گرد بازو حائل کر دیے۔
"کچھ کالا نہیں ہے۔۔۔۔۔
تمہارا وہم ہے بس۔"
"تو پھر آپ کے دماغ میں
کوئی کھچڑی پک رہی ہو گی۔"
"کوئی کھچڑی نہیں پک رہی۔۔۔۔۔
اگر تم ایسے ہی مجھے تنگ کرتی رہیں تو میں نہیں آؤں گا لینے کے لیے۔"
"خیر، وہ تو اب آپ ضرور آئیں
گے۔" علیشاء نے نظریں گھماتے ہوئے کہا۔
"سوچتی رہو جو سوچنا
ہے۔" شایان نے خود کو بچاتے ہوئے کہا۔ علیشاء خاموش ہو گئی۔
کچھ دیر بعد وہ پھر بولا،
"ویسے ایک بات پوچھوں؟"
"جی جی پوچھیں۔۔۔۔۔"
"وہ جو لڑکی تمہارے ساتھ باہر آئی تھی۔۔۔۔۔۔ تمہاری دوست ہے کیا؟"
"کون سی لڑکی؟"
"وہی، جو تمہارے ساتھ کالج
سے باہر آئی تھی۔" شایان نے زور دے کر کہا۔
"اچھا گل۔۔۔۔۔ ہاں، دوست
ہے میری۔ لیکن وہ سیکنڈ ایئر کی ہے، اور میں فرسٹ ایئر کی۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہے
ہیں؟ کہیں آپ کو وہ پسند تو نہیں آ گئی؟" علیشاء نے چھیڑا۔
"فضول باتیں نہ کرو۔ میں
تو بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔"
"ویسے ہی پوچھ رہا
تھا۔۔۔۔۔ اتنا پاگل سمجھ رکھا ہے کیا؟ اب سمجھ میں آیا آپ مجھے لینے کیوں آئے ہیں۔"
"تمہیں شرم نہیں آتی ایسی
باتیں کرتے ہوئے؟ شرم کرو علیشاء احمد۔۔۔۔۔ شرم کرو۔۔۔۔۔ میں نے تو بس یونہی پوچھ
لیا، غلطی کر دی۔"
"ہاں ہاں، ٹھیک ہے۔ اب زیادہ
اوور ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے میں بتا دوں، گل آپ سے پورے دو سال چھوٹی
ہے۔ آپ یونیورسٹی میں کوئی لڑکی ڈھونڈیں اپنے لیے۔"
"تم خاموش ہوتی ہو یا میں
تمہیں یہیں چھوڑ کر چلا جاؤں؟" شایان نے مصنوعی غصے سے کہا۔
"اچھا اچھا، ٹھیک
ہے۔۔۔۔۔ اب کچھ نہیں کہتی۔" علیشاء نے ہنستے ہوئے صلح کی۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
Free MF Download Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ