Zalim Samaj written by Saleem Saqi

Zalim Samaj written by Saleem Saqi

Zalim Samaj written by Saleem Saqi

  ''بن بیاہی بیٹیاں اور ظالم سماج''

   سلیم ساقی

  سرگودھا


ہمارے ہاں شادی بظاہر ایک گٹھ بندھن کے طور پر دیکھی جاتی ہے ہماری نظر صرف یہیں تک دیکھنے کے قابل ہوتی ہے کہ ایک لڑکی اور ایک لڑکے کی شادی ہو گئی عرصہ گزرا انکے بچے ہوئے اس جوڑے نے ایک ساتھ زندگی گزاری اور وہ دنیا سے چل بسے

مگر حقیقتا ایسا بالکل بھی نہیں ہے شادی صرف ایک بندھن کا نام نہیں شادی صرف ایک لڑکی اور ایک لڑکے کا آپس میں میل ملاپ نہیں شادی مہندی،بارات اور ولیمہ ان سب کا نام نہیں ہے
شادی نام ہے ایک زمہ داری کا شادی نام ہے ایک جیون ساتھی کےساتھ اسکے سائے تلے اپنی خوشیاں و غم منانے کا شادی نام ہے حرام کام کو حلال طریقے سے رب رسول کے طریقے سے بتائے ہو طریقے سے کرنے کا شادی نام ہے اپنے ہمسفر کی عزت و آبرو کی حفاظت کا شادی نام ہے خود کی عصمت و عفت کے گرد حفاظتی پہرہ داری بٹھانے کا شادی نام ہے احسن طریقے سے خود کو استوار کرنے کا
میں نے ایک دفعہ اپنے والد گرامی سے پوچھا
مرد اور عورت شادی کیوں کرتے ہیں؟
بابا جانی فرمانے لگے کہ دیکھو بیٹا مرد شادی اسلیئے کرتا ہے کیونکہ اسے اپنی عزت و آبرو کی رکھوالی کیلیئے اک اچھے و مخلص ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسکی پیٹھ پیچھے اسکی عزت و آبرو کی رکھوالی کر سکے اور عورت شادی اسلیئے کرتی ہے کیونکہ عورت زات اک ایسی نازک زات بنائی ہے رب نے جو اکیلے اس سماج میں سروائیو نہیں کر سکتی زندگی بھر کا کنوارہ پن اسکیلیئے باعث ندامت اور باعث زلالت ہوتا ہے اسے اپنی عصمت و عفت کو اک پاک دامن ہاتھوں میں سونپ کر خود کو جینے کے قابل بنانا ہوتا ہے وگرنہ ہر آئے دن کنوارے پن کے گندی نظروں کے تیر اس کے بدن پر گویا کہ نا مٹنے والے نشان چھوڑ جاتے ہیں

جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں

"وہ آپ کیلیئے لباس ہیں اور آپ اس کیلیئے لباس ہیں"

شادی نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان عورت کو ہوتا ہے ہمارے اردگرد ہمارے محلے میں کافی عورتیں بن شادی کے زندگی گزار رہی ہوں گی ان کی حالت دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ بن شادی کے عورت کا جیا جینا کس قدر کٹھن اور مشکل ہوتا ہے سبھی نہ سہی پر سو میں سے اسی فیصد اپنے ماں باپ کے گھر کی دہلیز پر گھٹ گھٹ کر مر مر کے جی رہی ہوں گی اسی آس پر کب موت آئے اور انھیں دبوچ لے

کیونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں نا جہاں ہم اگر بیاہ کر کسی گھر چلے جائیں نا (یہاں میں لڑکی کی بات کر رہا ہوں) ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں پہلے تو جیسے کوئی تھا ہی نہیں ہم ہی ہم ہیں اگر کوئی تھا بھی تو اب ہمارے آنے سے وہ گھٹ گھٹ کر جیئے گا اکثر ایسے کیسز میں بھابی اور ایسی نند جو بن بیاہ کے ماں باپ کے گھر کی دہلیز پر بیٹھی اپنی زندگی کی سانسیں گن رہی ہوتی ہے ان کے بیچ ہوتا ہے اورپر سے نے آنے والی نئی بھابیاں پھر ایسی نندوں کو اپنے سر کا بوجھ سمجھ لیتی ہیں دن رات بات بہ بات انھیں طعنے اور سلاوتیں سنانے کے علاوہ انکے پاس کوئی کام نہیں ہوتا
 پھر ایسی نندوں (گھر بیٹھی بن بیاہی) بیٹیوں کے پاس بچتی ہے خاموشی اک ایسی خاموشی جو نجانے کتنے دکھ سکھ چھپائے اندر ہی اندر اک جوگ اک سوگ بن کر ان کے جسم کو گھن کی طرح لگنی شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ گھن انھیں اندر سے چاٹ کر چٹ کر جاتا ہے اور یہ بن بیاہی بیٹیاں دم توڑ جاتی ہیں یہ دنیا چھوڑ جاتی ہیں
 ہمارے ظالم معاشرے کی گندگی اور اسکے پیدا کردہ اصولوں کا اثر ہے شائد جو سٹیٹیس کی کلی کو ہمارے گردن میں اٹکائے رکھتا ہے کسی کے اگے جھکنے نہیں دیتا اکثر دیکھا گیا ہے جنکا بچہ پڑھ لکھ کر کوئی بڑا افسر بن جائے نا پھر انکی ٹانگ زمین پر نہیں لگتی انھیں پھر اپنے بیٹے کی شادی بھی کسی افسر سے ہی کرنی ہوتی ہے وگرنہ زمانے میں ناک کٹ جائے گی نا اگر اپنے خاندان کی کسی ان پڑھ مگر سلجھاؤ لڑکی سے بیاہ دیا گیا تو یونیورسٹی کی دوستوں اور اپنے دوستوں کو کیا بتائے گا کہ انکی بھابی کیا جاب کرتی ہے اور دوسری جانب ہماری پسند اور  ناپسند ہماری زندگی کی تختی کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیتی ہے اگر لڑکی دیکھنے جاؤ تو بھئی یہ لڑکی گوری ہے یہ کالی ہے یہ ایسی ہے یہ ویسی ہے یہ ان پڑھ ہے وغیرہ وغیرہ
 اکثر ماں باپ اپنے بچوں کی شادی اسلیئے لیٹ کیئے رکھتے ہیں بھئی میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہے دھوم دھام سے ہونی چاہیے ابھی میں قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں ایک دفعہ خلاصی مل جائے پھر دیکھنا محلے میں چرچے ہوں گے چرچے اور پھر وہ خلاصی نہ کبھی ہو پاتی ہے اور نہ بیٹی بیاہی جاتی ہے نہ بیٹا بیاہا جاتا ہے میں پوچھنا چاہوں گا بھئی کیا خرچے کیئے بنا یہ فرض ادا نہیں ہو سکتا کہ اپنے بیٹی کو گھر رکھ رکھ کے بٹھا بٹھا کر بوڑھا کرنا ضروری ہوتا ہے؟ کیا خواب و خیال کی دنیا میں جیتے جی اسکا دم نکالنا ضروری ہوتا ہے؟

کیا اسے زمانے کی نظروں میں ''اوتر نکھتر'' پنجابی کا لفظ ہے  کہلوانا ضروری ہوتا ہے اوتر نکھتر پنجابی میں اس شخص کو کہتے ہیں جسکی شادی نہ ہوئی ہو جو کنواہ ہو اور ایسے شخص کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا

میری ایک جاننے والی ٹیچر ہیں اللہ انکی لمبی زندگی کرے آمین مگر وہ ہیں غیر شادی شدہ عمر ہو گی کوئی پچاس پچپن برس یقین جانو وہ کبھی ہمارے ہاں آئیں نا اور اپنے دکھوں کی رواداد سنانے لگ جائیں کیسا انکے ساتھ انکی بھابی برتاؤ کرتی ہیں اور کیسے انھیں اور کیا کیا طعنے انھیں سننے کو ملتے ہیں محض شادی نہ ہونے کی وجہ سے یقین جانیئے سن کر رونا آ جاتا ہے روح رک کانپ جاتی ہے کہ آیا کہ ہماری بن بیاہی بیٹیاں اس قدر دل دہلا دینے والے حالات کا سامنا کرتی ہیں اور کیسے خود کو بند کمرے میں رکھ رکھ کر اپنی زندگی کی سانسیں اس آس پہ لیتی ہیں شاید یہ سانس آخری ہو شاید یہ سانس آخری ہو

آخر ہم اپنی بیٹیوں کو جوان ہوتے کیوں نہیں بیاہ دیتے کیوں انھیں گھر پہ بٹھائے رکھ رکھ کر انھیں اوور ایجڈ کیئے دیتے ہیں اور پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچتی ہے تب بھاگ پڑتے ہیں انکیلیئے رشتہ ڈھونڈنے

''اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت''

خدارا اس فرض کو جتنا جلدی ہو سکے ادا کر دیا کرو اور آخر میں،میں اپنی ان ظالم بھابیوں سے التماس کروں گا جو بن بیاہی گھر کی دہلیز پر بیٹھی بیٹیوں سے مانوں کسی نوکر جیسا سلوک کرتی ہیں بس کام کام کام اور دن رات انھیں طعنے مار مار  کے انکا انھی کے ماں باپ کے گھر پہ ہونا خود پہ بوجھ سمجھتی ہیں میں التجا کروں گا اپنی ایسی بہنوں سے کہ خدایا اگر آپکا گھر بس گیا تو پلیز ان کی دل ازاری مت کریں وہ پہلے ہی دکھوں اور قسمت کی ماری ہیں وگرنہ کون شوق سے یوں اپنے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھانا چاہے گا کس کو پڑی ہے صبح صادق سے لے کر رات گئے تمہاری اول فول باتیں سننے کی تم یہ کیوں نہیں سمجھتیں آخر وہ بھی کسی کی بیٹیاں ہیں

خدا سب کو ہدایت نصیب فرمائیں آمین۔



Post a Comment

Previous Post Next Post