Amanatain

Amanatain

Amanatain

"امانتیں"


وہ کیسے بھی کر کے چوروں کی طرح چھپتی چھپاتی گھر پہنچی اور کانپتے ہاتھوں سے بمشکل دروازہ کٹھکٹھا پاٸی ..
دوازہ کھلا تو ماں نے اسے دیکھا۔ممتا جاگی ۔۔مگر وہ مجبور تھی " اب کیا لینے آٸی ہو بتاٶ ؟ عزت تو لوٹ لی تم نے ۔۔۔تمہاری وجہ سے ہم گھر میں قید ہوکر رہ گۓ ۔۔لوگ ہمیں یہاں سے جانے کی دھمکیاں دیتے ہیں "
ماں اور بیٹی کےدرمیان کشمکش جاری تھی کہ
باپ اندر سے پستول اُٹھاۓ آیا تو مریم ماں کے پیچھے چھپ گٸی ۔۔
"مجھے معاف کردیں خدا کے لیۓ !!وہ چلا رہی تھی۔
تڑاخ تراخ ۔۔یکے بعد دیگر کٸی گولیاں مریم کے سینے میں پیوست ہوگٸیں ۔
گولیوں کی آواز سن کے مریم ہڑبڑا کر اُٹھ گٸ تو سکھ کا سانس لیا ۔۔ہاں وہ خواب تھا ۔
شبیر کا انتظار کرتے کرتے وہ سو گٸی تھی ۔
 روتے ہوۓ اس نے مباٸیل اُٹھایا اور میسج ٹاٸیپ کرنے لگی ۔۔
" سنو ! میں مریم نہیں بلکہ اک بہن اور اک بیٹی بھی ہوں میرے ذمہ کچھ امانتیں ہیں ۔۔۔میرے باپ نے جو میرے سر پر عزت اور شفقت کے دھاگوں سے بنی چنری ڈالی ہے ۔۔میری ماں نے جو محبتوں اور پیار کے موتیوں  سے پرو کے یہ بھروسے کا ہار مجھے پہنایا ہے ۔۔۔اور وہ بھاٸی جس نے میرا محافظ بن کے اپنی جان کی قسم کھاٸی ہے ۔۔۔وہ بہنیں جو  مجھے بیٹیوں سے بڑھ کے محبت دیتیں ہیں ۔۔کیا ان امانتوں میں خیانت کرکے میں جی پاٶں گی ۔۔ہرگز نہیں میں سب کا مان اور بھروسہ  نہیں توڑ سکتی ۔۔مجھے ان امانتوں کی پاسداری سونپ دی
گٸی ہے ۔ اور امانت میں خیانت گناہ عظیم ہے ۔"میں نہیں بھاگ سکتی تمہارے ساتھ "
"میسج دیلیورد"
سکریں کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھیں بھی چمکنے لگیں ۔
اور آنسوں جاری تھے۔
   
آمنہ نثار



Post a Comment

Previous Post Next Post