Mausam E Gul Written By Iram

Mausam E Gul Written By Iram

Mausam E Gul Written By Iram

موسمِ گُل"

از قلم ارم

 

مجھے رنگ دے نہ سُرور دے !

مِرے دِل میں خود کو اُتار دے

 

مِرے لفظ سارے مہک اٹھیں

مجھے ایسی کوئی بہار دے

 

مِری نِکہتوں کو عرُوج دے

مجھے پُھول جیسا وقار دے

 

سرمٸی شام دھند کا انچل اوڑھے کسی دو شیزہ کا روپ دھار چکی تھی۔

سردی کی شدت کے باوجود سیالکوٹ کینٹ میں خوب چہل پہل تھی۔ ہر انسان اپنی دھن میں مگن تھا سیرت سٹڈیز کے باہر لگے بینچ پہ بیٹھی لڑکی آسمان کو گھور گھور کے دیکھنے میں مشغول تھی۔

 

"یار ردا یہ پراسرار سی لڑکی یہیں اس اسلامک ایجوکیشن سینٹر کے باہر کیوں بیٹھی رہتی ہے ہر روز اور پھر عباۓ میں لپٹی رہتی۔ مجھے سب سے زیادہ عجیب یہ لگتا ہے کہ ہر روز یہ آسمان کو کیوں گھورتی رہتی ہے میرا دل کر رہا اس سے پوچھوں".

ایمن نے ردا کو جھنجھوڑتے ہوۓ کہا۔

ردا جو کافی دیر سے شاپنگ کرتے ہوۓ تھک گٸ تھی ایمن کے جھنجھوڑنے پہ تپ سی گٸ۔

کیا ہے یار اسکی مرضی وہ یہاں بیٹھے یا کہیں بھی ہمیں اس سے کوٸ فرق نہیں وہ آسمان کو گھورے یا تمہیں بھاڑ میں جاۓ مجھے تنگ مت کرو۔

ردا نے پیزہ ہٹ کی جانب ردا کو دھکیلتے ہوۓ جھاڑ دیا۔

ایمن دل ہی دل میں اس لڑکی سے بات کرنے کا قصد کر چکی تھی۔ لیکن ردا کے سامنے یہ کہنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔

ویلفیٸر شاپ کے نام سے مشہور سیالکوٹ کے اس کونے میں رونق عروج پہ تھی۔ ایمن کا گھر تقریباً اسی روڈ پہ بنی کالونی میں تھا جہاں سے وہ ہر روز یہاں چہل قدمی کرنے اور رونق دیکھنے آتی تھی۔ تقریباً دو سال سے وہ اس شاپ کے بلکل سامنے بنے اسلامی ادارے کے باہرلگے بینچ پہ بیٹھے اس لڑکی کو دیکھا کرتی تھی۔ عجیب پراسرار سی لڑکی عباۓ میں لپٹی اور آسمان کو گھورتے رہنا۔ اور یہ لڑکی مغرب کی آذان ہونے سے کچھ دیر پہلے وہاں سے اٹھ کے چلی جاتی تھی۔

کون تھی وہ کہاں سے آٸ تھی یہ تجسس ایمن کے من میں جنگ برپا کر چکا تھا۔ انہیں دنوں اسکی کزن ردا لاہور سے سیالکوٹ رہنے آٸ تھی ایمن ردا کی خالہ زاد ہونے کے ساتھ دوست بھی تھی۔ اس لیے ایمن نے اسے اس لڑکی کے متعلق بتایا۔

ردا نے پہلے تو ایمن کا خوب مذاق بنایا لیکن پھر اس لڑکی سے بات کرنے اور اسکا مسلہ پوچھنے کا کہا۔ ایمن دل ہی دل میں خوش بھی تھی اور بے چین بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

 

وہ کشش زمانے کی

دھندلا سی گٸ ہے

میں اپنے آپ کو

ستاروں میں کھوجوں گی!!!

 

میں یہاں بیٹھ جاٶں؟

ایمن نے ہچکچاتے ہوۓ اس لڑکی سے کہا۔

اس لڑکی کی جانب سے کوٸ جواب موصول نہ ہوا اور نہ ہی اس نے ایک بار بھی ایمن کو دیکھا اسکی نظر ابھی تک آسمان کی جانب تھی۔

یار تم آسمان میں کیا کھوج رہی ہو؟

ردا نے جھنجلاتے ہوۓ کہا۔

جس کا زمین پہ کچھ کھو جاۓ اسکی نظر پھر آسمان پہ رہتی ہے!!!!!

ایک خوبصورت آواز ایمن اور ردا کے کانوں سے ٹکراٸ۔

آپ کی آواز بہت پیاری ہے!!

ایمن نے دل سے اسکی تعریف کی۔

ویسے کیا کھویا ہے آپ نے؟

ردا نے طنزیہ سوال کیا۔

"موسمِ گُل"

لڑکی کا جواب مختصر تھا۔

موسمِ گُل؟

ردا نے عجیب نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔

ہاں موسمِ گل!!

لڑکی ایک نظر ردا کی جانب دیکھ کے فقط اتنا ہی بول پاٸ۔

یہ موسمِ گُل کونسا ہوتا ہے؟

ایمن نے معصومیت سے پوچھا۔

تم کیوں کھلے عام درندوں کو اپنی ہڈیاں نوچنے کی دعوت دے رہی ہو؟

پراسرار لڑکی نے ردا کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا۔

کیوں مجھے کیا ہے؟

ردا نے اس لڑکی کو طنزیہ لہجے میں کہا۔

بیلو جینز شارٹ شرٹ دوپٹے کے نام پہ کوٸ تکلف ہی نہیں تھا سردی کے باعث جنیز کی اپر پہنے وہ خوبصورت لڑکی ہر آتے جاتے انسان کی نظر میں تھی لیکن ایک اسے ہی اپنا آپ دیکھاٸ نہیں دے رہا تھا۔

اب تم چاہتی ہو کے میں تمہاری طرح پتھر کے دور میں چلی جاٶں؟

ردا اب تلخ ہو چکی تھی۔

"پتھر کا دور بہت پرانا ہے نہ لیکن یقین کرو تم اسی پتھر کے دور میں ہو  جو چودہ سو سال سے بھی بہت بہت پہلے کا تھا۔ یاد ہے تمہیں حضرت یوسف علیہ السلام کا دور جہاں عورتیں چلتی پھرتی مرد کی آنکھ کو زنا کرواتی تھیں اور ان کی چال ڈھال۔

آہ!!!!!!

 یہ عورت بھی کیا ہے اسلام کی حدود کو قید سمجھنے لگی ہے اور بازارِ مصر کی زینت بنی پھرتی ہے".

سنو لڑکی تم زندگی میں کچھ بھی کھو دینا لیکن کبھی موسمِ گُل مت کھونا تمہاری زندگی ویران ہو جاۓ گی۔ تمہاری زینت تمہارے لیے موسمِ گُل ہے تمہاری حیا تمہارا ایمان ہے۔

اوہ پاگل لڑکی تم اپنا ایمان اپنے پاس رکھو ہر انسان باشعور ہے تم پردہ کر کے سمجھتے ہو کے تم سے بڑا مومن کوٸ نہیں مگر نظر کا پردہ ہونا لازم ہوتا ہے۔

ردا اب تپ کے بولی۔

مت دو دعوت درندوں کو مت دو مت کھونا موسمِ گُل!!

لڑکی اب آہستگی سے کہہ رہی تھی۔

ردا ایمن کا ہاتھ تھامے روڈ کراس کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

 

بریکنگ نیوز ایک اور دل دہلا دینے والا سانحہ لاہور میں دو لڑکیوں کے ساتھ گینگ ریپ کر کے قتل کر دیا گیا۔

نیوز سنتے ہوۓ ایمن کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ ردا نے اٹھ کے ایمن کو پانی پلایا ردا اب ان لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی جنکی ڈریسنگ ردا سے کم نہ تھی۔

ایمن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

ردا بھی بے تحاشہ سہم چکی تھی اتنی درندگی کوٸ کیسے کر سکتا۔

اگلے ہی دن ایمن اور ردا دوبارہ اسی اسلامک سینٹر کے باہر لگے بینچ پہ اس لڑکی کے پاس موجود تھیں۔ ردا کا حُلیہ آج کافی بدلا ہوا تھا جینز اور شرٹ کی جگہ فراک میں ملبوس بہت دلکش لگ رہی تھی۔

تو کیا لڑکیاں اپنی وجہ سے درندگی کا شکار ہوتی ہیں؟

ردا نے سوال کیا۔

ہاں!!

سورہِ احزاب

آیت ٥٩

اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر اُنکے لیے موجبِ شناخت (و امتیاز) ہوگا تو کوٸ انکو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

پیغمبر کی بیویوں بیٹیوں سے زیادہ مطہر کوٸ نہیں ہوسکتا لیکن حکم تو حکم ہے اسی طرح مرد کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم لیکن ہم اپنے بچوں کو ماڈرن بنانے میں لگے ہیں اور پھر یہ نفس کیسے قابو ہوگا؟

جب عورت پردہ نہ کرے اگر کرے تو فیشن والا ٹاٸٹ عبایا آنکھوں کا میک اپ تو مرد بھی نگاہ کو نیچی نہ رکھے گا۔

اسلام مرد کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیتا عورت کو پردے کا اور پھر اسے قید سمجھ کے نتیجہ سامنے ہے۔

ردا اور ایمن خاموشی سےاسے سن رہی تھیں۔

تو جو درندے بچوں کا ریپ کرتے وہ؟

ردا اب آہستگی سے بولی۔

جب تم اپنے بچوں کو ویلکم پارٹی میں ڈانس کرواتے ہو بچیوں کو مغربی لباس پہناتے ہو اور گلیوں کوچوں میں جانے دیتے ہو تو یہ سب ہونا ہی ہوتا ہے۔

نفس کا غلام بچوں کو تو کیا جانوروں کو بھی معاف نہیں کرتے۔

زانی کی سزا کوڑے ہیں تو کیوں اس قانون کو بدلا گیا؟

اس سب کا ذمہ دار کون ہوگا؟

جس جگہ سے اسلام کی پاسداری ختم ہو جاۓ وہاں ننھے پھول اور قبر میں لیٹے مردے بھی امان کے ملاشی نظر آٸیں گے۔

لوٹ جاٶ لوٹ جاٶ موسمِ گُل کی ویرانی سے پہلے!!!!

وہ لڑکی اس بینچ سے اٹھ چکی تھی۔

ردا اور ایمن کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post