Roda E Aabroo By Insha Muhammad Yaseen

Roda E Aabroo By Insha Muhammad Yaseen

Roda E Aabroo By Insha Muhammad Yaseen

رداء آ برو‎‎

تحریر انشاء محمد یسین


اولاد والدین کی رضامندی  کے بغیر ہی شادی  کر لے

۔تو یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کون سا گناہ کیا ہے۔ ہمیں  اسلام بھی اس چیز کی اجازت

دیتا ہے تو پھر شرمندگی کیسی۔ تو کیا ایسا

 سوچنے والوں کو یہ نہیں پتا کہ اسلام میں والدین کی

خوشی کے بارے میں کیا کہا گیاہے۔ ان کی رضا کی

کیا فضیلت ھے۔ ہر معاشرے میں عزت کچھ

اصولوں اور روایات سے جڑیں ہوتی ہے۔ آ پ نے

پسند کی شادی کر کے کوئی گناہ نہیں کیا۔ تو کیا آ

پ کے اس عمل سے والدین کو تکلیف ہوئی اور

معاشرے سے جو ذلت ملی۔ کیایہ آ پ کو اجر کا

 کام لگتا ہے؟

وہ اولاد جو والدین کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتی

ہے۔ وہ خود کیسے خوشیوں بھری زندگی گزار

سکتی ہے۔ یہ باتیں مجھے سمجھ نہیں آ تی تھیں ۔

لیکن اب آ گئی ہیں کہ ماں باپ سے ذیادہ آ پ کا

کوئی سگا نہیں۔ مجھے سمجھ تو آ ئی لیکن اب

شاید کافی دیر ہوگئی ہے۔زندگی کو تو جیسا گزرنا

 تھا ،ویسے ہی گزر جاتی کم از کم وقت رخصت یہ

 خلش تو نہ رہتی کہ کاش والدین کی بات مان لیتی

تو شاید زندگی سہل ہو جاتی ۔ مگر ہم سمجھتے ہی

 نہیں اور وقت ختم ہو جاتا ہے۔ صدیوں سے یہی

کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہم دنیا میں آ تے ہیں اپنے لیے

 مسائل پیدا کرتے ہیں۔اپنی زندگی کو مشکل بناتے

 ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ہم جلدبازی ، کم ہمتی ،

بےجادلیری، کی وجہ سے اپنی زندگی کے کچھ ایسے فیصلے کر جاتے ہیں۔جو ہمیں پچھتاوے کے سوا

کچھ نہیں دیتے ۔ اور یہ پچھتاوا باقی ماندہ زندگی

پر محیط ہو جاتا ہے۔ ہم شعور کی ذرا سی گہرائی

جان لیں تو ایسے کئی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔

یہ آ سان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔    ۔۔۔۔۔۔

ہانی ۔۔۔۔۔اس دفعہ تو میں ثناء کی طرح کا سوٹ بنواوں گی ۔ یہ دیکھو کتنا پیارا ہے۔اس نے سفید کڑھائی والا سوٹ ہانیہ کے سامنے پھیلا دیا

ہانی نے بغور سوٹ کو دیکھا ۔ " لیکن یہ تو کافی مہنگا لگ رہا ہے " ۔

تو کیا ہے ۔ اتنا پیارا ہے مہنگا تو ہو گا ۔ میں تو یہ ہی بنواوں گی۔

کیا کرتی ہو یشال چاچو اتنی محنت سے کما تے ہیں اور تم کتنی بےدردی سے اڑا دیتی ہو ۔

تو کیا ہے میرے لیے ہی کماتے ہیں۔اگر میں اپنے پے خرچ کر لوں تو کیا ہے۔ یشال لاپرواہی سے بولی۔

ہانی افسوس زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے۔ کیچن میں چلی گئی۔

یشا ل کیچن میں آؤ۔ میری تھوڑی سی مدد کر وا دو۔ پھپھو آ رہی ہیں دوپہر کے کھانے پر۔

ایک تو یہ پھپھو آ ئے دن آ جاتی ہے۔ یشا ل بیزاری سے بولی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوائنٹ سے اتر کر اس نے اپنی سانس کو درست کیا ۔ پسینے کے باعث اس کا چہرہ اس طرح نظر آ رہا تھا۔ جیسے صبح دھند چھٹنے پر پھولوں کے رخساروں پر شبنم چمک رہی ہو۔ ڈرائیونگ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے آ ج بھی وہ اسے گھورنے کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔

آ ئیے میں آ پ کو چھوڑ دوں۔

وہ جو اپنی ہی دھن میں مگن جارہی تھی۔ پہلے چونکی۔ پھر قدرے بد مزاجی سے بولی : نہیں شکریہ!

شرمائیں نہیں۔ میں آ پ کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ آ ئیے  بیٹھئے ۔ 

واہ کیا مزاج ہے کیا لہجہ ہے۔ میں تو جیسے مری جا رہی ہوں کوئی آ ئیے اور مجھے لفٹ کی آ فر کرے اور فوراً بیٹھ جاؤں۔ یہاں سے دفع چکر ہوتے نظر آ و ورنہ آ پ کی بےعزتی کا تماشہ لوگ دیکھیں گے ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گلی میں مڑ گئی۔ جہاں اس کی گاڑی داخل نہیں ہو سکتی تھی۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے چند دن بے حد مصروف گزرے جس کی وجہ سے اس واقعے کا اثر زائل ہو گیا۔ کچھ کپڑے لینے تھے ۔ جس کے لیے یونیورسٹی سے چھٹی کر کے ہانیہ کے ساتھ مل کر بازاروں کے چکر لگائے ۔

ہاے ہانی میں تو تھک گئی ہوں۔

تم کپڑے بھی تو ایسے خرید رہی تھی جیسے بری خرید رہی ہو ۔ ہانی نے شکایتی انداز میں کہا۔

یشال کھلکھلا کر ہنس دی ۔

اور ہانی کانوں کو ہاتھ لگاتی شاپر اٹھا کر کمرے میں چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے بکھرے کاغذات کو اس نے بے دلی سے سمیٹا اور فائل میں قید کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی ۔ کھلے بالوں میں ہولے ہولے انگلیاں چلاتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔

کون تھا وہ۔ اس نے سوچتی ہوئی نظروں سے چھت پر گھومتے پنکھے کو گھورا۔

یشال کہیں تمھارے خواب تو پورے نہیں ہونے والے ۔ یہ سوچتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔

واہ اکیلے اکیلے مسکرایا جارہا ہے۔ خیر تو ہے۔

وہ چونک گئی۔ارے ہانی ٹم کب آ ئی۔

تم یہ بتاو یہ مسکرایا کیوں جا رہا ہے۔

کچھ نہیں۔

میں سوچ رہی تھی ہانی ۔ پالر نہ چلیں۔

تمھیں پالر جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اتنی تو پیاری ہو اور مجھے تو معاف ہی رکھو۔ وہ بات مکمل کرتے ہی دروازے کی چوکھٹ عبور کر گئی۔ اس ڈر سے کہیں دوباہ ہی شروع نہ ہو جائے۔

۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ ج وہ تین دن کے بعد یونیورسٹی آ ئی تھی۔ اور لیکچر کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی۔ جب اسے اپنے ساتھ کوئی سایہ چلتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا آ ج پھر وہی چہرہ نظر آیا جو روز بس سٹاپ پر ہوتا ہے۔

آ پ ۔ اچانک اس کی زبان پھسلی۔

کیا چاہتے ہیں آ پ کیوں میرا پیچھا کر کے مجھے ڈسٹرب کر رہے ہیں۔

دوستی کرنا چاہتا ہوں میں تم سے ۔بڑے تو۔ سے بتایا گیا ۔ جیسے بڑا احسان کیا گیا ہو اپنا مقصد بتا کر۔

دیکھیں مسٹر۔

بالاج حیدر نام ہے میرا ۔

جو بھی ہے ۔ یشال بے زاری سے بولی۔

میں اجنبی لوگوں سے دوستی نہیں کرتی ۔

سب اجنبی ہی ہوتے ہیں بعد میں آشنا ہوتے ہیں ایک دوسرے سے۔ بڑے رعب  سےاپنا نمبر یشال  کے ہاتھ میں پکڑا کر وہ کھٹ کھٹ کرتا آ گے بڑھ گیا۔ اور یشال نے اس کا نمبر سنھبال کر بک میں رکھ لیا۔

انسان اپنی خواہشات کے ہاتھوں لاچار اور مجبور ہو کر کبھی ایسے قدم اٹھا لیتا ہے جو وقتہ طور پر تو خوشی دے جاتے ہیں۔ لیکن یہ قدم دراصل اسے ہلاکت خیز انجام کی طرف گامزن کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کبھی تمنا کے راستوں پر

نکل پڑو تو خیال رکھنا

ہوائیں ، بادل ، فضائیں، موسم خیال

چہرے بدل بدل کر تمھیں ملیں گے

تو لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کے

شوخ دھوکے میں آ نہ جانا

کبھی جو چاروں طرف تمھارے

کرن کرن اپنا خواب  آسا بدن نکھارے

زمیں پہ اترے

تو دھند لگوں میں سما نہ جانا

کبھی جو آ نکھوں میں چاند ہنس ہنس کر

چاندنی کا خمار بھر دے

تو اپنی آ نکھیں کہیں خلا میں گنوانہ آ نا

کہ یہ نہ ہو کہ پھر جو خواب ٹوٹے

دھنک دھنک کا سراب ٹوٹے

تو جسم و جان پر عذاب ٹوٹے

اور تم بمشکل لرزتے ہاتھوں میں

کرچی کر چی بدن سنبھالے

کہیں بلندی پہ چڑھ کے

رستہ ہوئی نگاہوں سے

واپسی کے نشان ڈھونڈو

اجڑ گیا جو جہاں ڈھونڈو

کبھی تمنا کے راستوں پر

نکل پڑو تو خیال رکھنا

کہیں سے خالی پلٹ کے آ نا

بہت کٹھن ہے

بہت کٹھن ہے

بہت کٹھن ہے

۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں وہ مجھ سے محبت تو نہیں کرتا۔ میری آ واز ، گھٹتی بڑھتی میرے ہی دل پر ایسے آ گری جیسے سفید ٹھوس ، نوکیلی سی برف کے تودے یک لخت پر بتوں کی چوٹیوں پر آ گرتے ہیں اور ان پر بتوں کے سینوں پر اگے سبزہ زار کو کچلتے مسلتے اور موت جیسی ٹھنڈک سے خشک کر ڈالتے ہیں۔

میں نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا۔

کیا واقعی ہی وہ مجھ سے محبت کرتاہے۔ میری آ واز خود کلامی کی سی تھی۔

یشال آ و ذرا سٹو روم کی صفائی میں میرا ہاتھ بٹا دو۔ ہانیہ نے اچانک کمرے میں داخل ہو کر میری سوچوں میں خلل ڈالا تو میں بھی سر جھٹک کر اس کے ساتھ چل دی ۔

کیا ہانی تمھیں بھی آ ج سال بعد خیال آ یا ہے۔اس کباڑ خانے کی حالت سنوارنے کا۔ پسینے سے تربتر میں نے گتے کے کارٹن ایک کونے میں رکھے ۔ لوہے کے تین ڈنڈے ایک طرف رکھتے ہوئے یشال بیزاری سے بولی۔

پھر ہاتھ جھاڑ کر میں نے پیٹی میں سے انتہائی پرانے سوٹ نکالے ۔ ایک تو یہ اماں نے جودڑو کے زمانے کے عجائبات اپنی پیٹی میں سنبھال رکھے ہیں۔ آ ج تو میں یہ کاٹھ کباڑ نکال کر ہی رہوں گی۔ چاہے امی جتنا مرضی بول لے۔ میں نے تو تہیہ کر لیا ہے۔ہانی چپ چاپ اپنا کام سر انجام دے رہی تھی اور بےچاری کر بھی کیا سکتی ہے۔ یشال کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی ۔ خاص طور پر ہانی کی تو بلکل نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مے آ ئی کال یو۔ اس کی انگلیوں نے تیزی سے میسج ٹائپ کیا اور بٹن دبانے کے بعد سینڈ کر دیا۔ چند منٹ بعد اس نمبر سے کال آ گئی۔ مو بائل پر نظر پڑتے ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔کال اٹینڈ کرتے ہی دوسری طرف سے آ واز ابھری ۔ مجھے یقین تھا تم ضرور مجھ سے رابطہ کرو گی۔ وہ خاموش رہی تو بالاج کو ٹوکنا پڑا۔

سن رہی ہو۔

"ہوں" کہہ کر اس نے اپنے ماجودگی کا احساس دلایا۔ وہ دوبارہ گویا ہوا

میں نے پہلی دفعہ تمھیں سفید سوٹ میں دیکھا تھا۔ جس دن سے تمھیں سفید کلر میں ملبوس دیکھا یہ رنگ میری زندگی بن گیا۔ میری صبح سفید ، میری رات سفید مجھے اس رنگ سے عشق ہو گیا ۔ یہ رنگ میری زندگی کے تمام رنگوں پر بھاری ہے۔ آ ہستہ آ ہیستہ فون پر بات کرنا یشال کا معمول بن گیا ۔ وہ یہ سب کرتے ہوئے اپنے باپ اور اس کی عزت کو فراموش کر بیٹھی۔

انسان کے کردار کی دو ہی منزلیں ہیں یا تو دل میں اتر جانا یا پھر دل سے اتر جانا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کے چہرے پر مت جائے کیونکہ ہر انسان ایک بند کتاب کی طرح ہوتے ہیں۔ جس کا ہر سر ورق کچھ اور ہوتا ہے اور اندر کچھ اور ہوتا ہے۔

اسی نامعلوم نمبر سے میسج تھا ۔ اس نے کھولا لکھا  تھا ۔

مجھے یقین ہے تم ضرور آ و گی ۔

ایک شاک تھا جو اسے لگا تھا ۔اسنے جواب میں پوچھا: کیوں ۔

چند لمحوں بعد جواب آ چکا تھا۔

مجھ سے ملنے ۔۔

وہ چلتی ہوئی کھڑکی تک آ ئی۔ ایک ہاتھ سے کھڑکی کے پٹ کھولے دوسرے سے میسج ٹائپ کر رہی تھی۔ ہوا کا جھونکا آیا اس کے تراشیدہ بالوں کی لٹیں کندھوں کو چھوتی آگے پیچھے جھولنے لگی ۔ تازگی کا احساس اس کی رگ رگ میں سرائیت کر گیا تھا ۔ جگہ کا نام بتا کر وہ خیالوں میں گم کپڑے استری کرنے لگی ۔ ہوا کے دلفریب جھونکے اس کے چہرے کو چھو کر جا رہے تھے۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا۔دروازہ  کھلا  ۔ اور تیز ہوا کے ساتھ بند ہو گیا۔ اس کی توجہ کا ارتکاز ڈانواں ڈول ہو کر پھر کپڑوں میں آ ن اٹکا۔

انسان کی تمام خوشیوں میں وہ خوشیاں سب سے بدتر اور قابلِ نفرت ہیں جو اوروں کی پسند پر موقوف ہوں۔

محبت ڈھونڈنے والی

حقائق سے بھری دنیا میں

سپنے دیکھنے والی حسین لڑکی

حقیقت تلخ ہوتی ہے

حقیقت تلخ ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ ج یونی سے گھر آ ئی تو ہانی پودوں کو پانی دے رہی تھی۔

ہانی۔۔پانی پلا دو۔ یار آ ج تو بہت زیادہ تھک گئی ہوں میں۔

کیوں تم سومنات کا مندر توڑ کے آ ئی ہو ۔جو تھک گئی ہو۔ ہانی نے گلاس تھماتے ہوئے کہا۔

بس ایسا ہی سمجھ لو۔

یشال۔۔

ہوں ۔۔

میرے پاس تمھارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ اچھا ! چلو جلدی بتاؤ کیا سرپرائز ہے۔

ارے واہ ۔ ایسے ہی بتادوں ۔ بنا کسی رشوت کے۔ وہ ہنسی۔

میں کیوں رشوت دینے لگی تمھیں ۔ نہیں بتاتی تو نہ بتا۔

بات ہی ایسی ہے۔ سنو گی تو بھڑک اٹھو گی۔ اس نے للچایا۔

نہ با با مجھے نہیں پھڑکنا۔اس نے منھ بنایا۔

اچھا نہ سہی ۔ اس نے کندھے آچکائے ۔ ویسے خبر بڑی اہم ہے ۔ توپ کا گولہ۔

چلو بتاو۔ کیا رشوت لو گے ؟ وہ تجسس ہار مان گئی۔

بس آ گئی لائن پر ۔ اس نے قہقہ لگایا۔

ہانیییییی۔۔۔۔

اچھا بتاتی ہوں ایسا کرو کوئی مزےدار سی چیز کھلانے کا وعدہ کرو۔

اپنے ہاتھوں سے بنا کے دوں۔۔

نہیں میری بہن ۔۔ابھی مرنا نہیں ہے۔ بازار ہی سے منگوا دے۔ وہ شرارت سے ہنسی۔

یشال نے گھور کر دیکھا۔

گھور مت میرا دل پہلے ہی بڑا کمزور ہے

اب بتا بھی دو۔ اس کا صبر جواب دے گیا۔ جو کہو گی کھلاؤں گی۔

پرامسس؟

ہاں ۔ ہاں۔ ہاں ۔ وہ چینخی۔

تو سنو ۔ کان ادھر کرو۔

یشال نے دانت پیس کر کان اس کے قریب کیا۔ فرمائیے۔لیکن ذرا جلدی ۔

آ ہمممممم! ہانیہ اس کے کان کے قریب کھنکاری ۔اود یشال اسے بس گھور ہی سکی۔

آ ج پھپھو آ ئی تھی ۔۔ علی کے لیے تمھارا رشتہ مانگنے۔

یشال کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو گیا۔اس کے چہرے پر بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ جبکہ ہانی اپنی باتوں میں مگن بولے جا رہی تھی۔ لیکن یشال کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ ئی ایم سوری بابا۔ میں علی سے شادی نہیں کروں گی۔

آ ج پھر پھپھو آ ئی تھی۔اسے جیسے ہی پتا چلا فوراً ہی ڈرائنگ روم میں جا کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ڈرائنگ روم ا بھی تھوڑی دیر پہلے ہی مچھلی بازار بنا ہوا تھا۔ یکدم ہی ایسی خاموشی چھاگئی گویا چھڑی کے ذریعے مہر بہ لب کر دیا گیا ہو۔ ان لوگوں کے رد عمل پر بنا غور کیے وہ جس طرح سکون سے آ ئی اسی طرح چلی گئی۔ نعمان صاحب تو صوفے پر ڈھے گئے۔ آ ج ان کی بیٹی نے سب کے سامنے ان کی رتی بھر عزت رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔

یشال تمھیں شرم نہیں آئی۔ یہ کس لہجے میں بات کر کے آ ئی ہو تم ۔

ہانی اس کے کمرے میں آ ئی اور غصے سے بولی۔

اس میں شرم والی کیا بات ہے۔ مجھے نہیں یہ ر شتہ پسند تو میں نے انکار کر دیا۔ یشال تحمل سے بولی ۔

ہاں نہیں پسند تھا تو کر دیتی انکار ۔ بتا دیتی چچا کو۔ لیکن اس وقت سب کے سامنے آ کر بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ چچا کو کتنا دکھ دیا ہے تم نے ۔ اندازہ ہے تمھیں۔

ابو کو چھوڑو تم اپنی بات کرو ۔ تمھیں یہی ڈر ہےنہ پھپھو تمھارے رشتے سے بھی انکار نہ کر دیں ۔ تو فکر نہ کرو ۔ تمھارے اور حسن کے رشتے میں کوئی مسلہ نہیں ہو گا ۔ پھپھو ایسا نہیں کریں گی۔ ورنہ وہ  اپنے مرے بھائی اور بھابھی کو کیا منھ دیکھا ئییں گی ۔

یشال تم انتہائی selfish ہو ۔ ہانیہ صدمے سے بولی اور کمرے سے  باہر نکل گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو ہی ابو  نے امی سے کہہ دیاکہ جس سے بھی شادی کرنا چاہتی ہے اسے کہے اپنے والدین کو لے آ ئے۔اسی سلسلے میں آ ج میں بالاج سے بات کرنے آ ئی تھی۔

لیکن بالاج نے جو اس سے بات کی ۔ یشال خونی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

یشال ڈارلنگ ! نجانے تم کون سی فینسٹی  میں ذندہ ہو ۔ آ نکھیں کھول کر دیکھو اس دنیا میں کیا کچھ ہوتا ہے ۔ اور کیا ہو رہا ہے۔

لوگوں کی زندگی میں ایسے چھوٹے موٹے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔ ہوا کے جھونکے کی طرح لوگ آ تے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اور ہوا کے جھونکے کے پیچھے کوئی نہیں بھاگتا۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔  ہم اچھے دوست بن کر رہ سکتے ہیں اگر تم چاہو تو۔

نجانے کیا بات تھی۔ دل پر اٹھتی ٹھیسو ں کے باوجود اسے دو ا نہیں آ یا تھا۔ کھلی آ نکھوں سے دیوار کو تکتے وہ کچھ سے کچھ سوچے جا رہی تھی۔

 

اگر سیکھی نہیں تھی وفاداری

تو کیوں دل لگایا تھا

لگا کے دل ہٹا لینا

تمھیں کس نے سکھایا تھا

ہوتا اگر کوئی ہمسفر تو بانٹ لیتا دوریاں

چلتے لوگ آ صفہ تیری کیا سمجھے مجبوریاں

( آ صفہ افتخار)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مندی مندی آ نکھوں سے اس نے ٹائم دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ہا نی کے ذریعے پیغام بھیجوا کر ابو کو رات کو ہی علی کے رشتے کے لیے ہاں کہہ چکی تھی۔ لیکن ندامت اتنی تھی کہ خود نظریں نہ ملا  سکی۔

اب کیا یشال اپنے ماں باپ کے سامنے سر اٹھا پائے کی  ۔ اور ان کا اعتبار بحال کر پائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانیہ کی شادی ہو چکی تھی اور وہ اپنے گھر میں خوش تھی ۔ یشال کی بھی علی سے منگنی ہو چکی تھی ۔ لیکن اس کے دل کی بے سکونی آ ج بھی اس کے ماضی کی چغلی کھاتی تھی ۔ اور یشال اپنے ماں باپ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھی کہ

شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی فطرت عجیب ہے۔ااے ہمیشہ دور کی چیز لبھاتی ہے۔ نہ کوئی بد صورت ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خوبصورت ہوتا ہے۔ بس جو چیز پاس نہیں ہوتی وہی دل کو جاتی ہے۔

محبت کوئی چیز نہیں ۔ بھلا نے ف بھی کوئی چیز ہے جو کیڑوں کی خوراک بننے کے لیے قبر میں چھوڑ دے ۔ عشق تو ایک بے چین مشغلہ ہے کہ جب اپنا عظیم الشان رقص کرتا ہے۔ تو کائنات کو اپنی           آ غوش میں دبوچ لیتا ہے ۔ ایک بے پناہ دریا جو ابھرتا ہے تو بڑی بڑی چٹانوں کو چھیلتا ، پیڑوں کو اکھیڑتا، اور ریگستانوں کو ڈبوتا چلا جا تا ہے ۔

لوگ کہتے ہیں عمر میں سچی محبت صرف ایک دفعہ ہوتی ہے ۔ مگر لوگو یہ بھی بتا دو وہ " ایک" ہے کون؟

انسان لٹو ہے اور اسے ہر سمت ہی قبلہ نظر آ تا ہے ۔

اور بالاج جیسے لوگ بھی کسی کی بہن ، بیٹی کے ساتھ اتنا ہی غلط کریں کے ا وہ اپنی بہن ، بیٹی کے ساتھ سہہ سکیں ۔ بالاج حیدر ہی کی طرح کے مرد ہوتے ہیں۔ جنھیں جتنے قریب سے دیکھو ۔ اتنے ہی کتے ا چھے لگتے ہیں۔

ختم شدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


7 Comments

  1. Mujhe bhi apne kuch ashaar bhejna hy main kaise post karu plz rahnumayi kare��

    ReplyDelete
    Replies
    1. Contact me on my Gmail adress

      Delete
  2. Wow what a fabulous story Yar
    Wow wow wow

    ReplyDelete
  3. Nice and great words ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ your friend Saira
    Munawar

    ReplyDelete
  4. 👌🏿👌🏿👌🏿👌🏿🥰😍🤩

    ReplyDelete
Previous Post Next Post