Dikhawa By Bareera
Dikhawa By Bareera
دکھاوا
بریرہ
اماں۔۔۔۔۔۔۔
کھانا دے نا بہت بھوک لگی ہے،
اماں۔۔۔۔۔ ہمیں بھوک لگی ہے کھانا دے دے ،بس پُتر ابھی میں کچھ
کرتی ہوں تم فکر نہ کرو میرے بچوں ۔
5، 6 سالہ دو بچے جن میں ایک لڑکا
اور ایک لڑکی تھی دونوں بھوک سے روتے ہوۓ کھانا مانگ رہے تھے جب فرزانہ جو کہ انکی اماں تھی اس نے انہیں ابھی دیتی ھوں کہہ کر چپ کروا دیا، وہ بیچاری
آدھے گھنٹے سے مسلسل اپنے بچوں کو دلاسے دے رہی تھی لیکن اسے کوئ راستہ نظر نہ آیا ۔۔۔۔
کیونکہ آج سے پہلے کبھی ایسا
نہیں ہوا تھا پہلے بھلے کچھ سوکھے ٹکڑے ہی سہی مگر دال پانی میں بگھو کر کھا لیتے لیکن
اللّٰہ کا شکر ادا کر کے کھا لیتے تھے لیکن
آج اسکے پاس ایسا کچھ نہ تھا کہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔
ماں تھی نا۔۔۔۔۔۔۔جو تھی تو خود بھی بھوکی لیکن بچوں کو تڑپتے
دیکھ سب کچھ بھول کر بچوں کی فکر کرنے لگی........ اچانک اسے "کھانا گھر"
یاد آیا جہاں بچوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا اللّٰہ اپنے بندوں کو کبھی تکلیف میں اکیلا
نہیں چھوڑتا مشکل میں کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی دیتا ہے اس نے بے ساختہ یہ سوچتے ہوئے
رب کا شکر ادا کیا اور دونوں بچوں کو لیکر جانے لگی کہ اچانک اسکا شوہر جو پانچ دن
سے گھر میں نہیں تھا اس نے آتے ہی اچانک فرزانہ کو گالیاں دینی اور مارنا پیٹنا شروع
کردیا نشہ میں تو پہلے ہی تھا بچے یہ سب دیکھ
کر ایک کونے پر سہم کر بیٹھ گئے جب شوہر مارنے کے بعد تھک ہار کر سو گیا تو بیچاری فرزانہ ہمت کر کے اٹھی ماں تھی
نا۔۔۔۔۔اس لئیے درد میں بھی بچوں کی بھوک کی فکر ستا رہی تھی کہ وہ ڈر گئے ہیں، کھانا
بھی نہیں کھایا۔۔۔۔۔۔ اُٹھ کے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور آنسوؤں پر قابو پاتے
بچوں کے ساتھ باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
" کھانا گھر" پہنچی تو
دیکھا کہ عورتوں کا رش لگا ہوا ھے، رش کو دیکھتے سوچنے لگی یا اللّٰہ اس رش میں تو شام تک باری نہیں آنے والی
لیکن جونہی بچوں کے چہرے پر نظر پڑی، وہ رش
میں آگے بڑھتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا تھا کہ یہ عورتیں اور بچے یہاں صبح سے موجود ہیں
تا کہ کھانے سے ساتھ راشن بھی مل سکے ، پہلے کھانا ملے گا اور پھر راشن بھی ملے گا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور خود
بھی انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔
اپنی باری آنے پرسب کو دال
چاول لیکر دیئے ۔ بچے دال چاول دیکھ کے خوش ہو گئے۔۔۔۔۔کہ آج تو بہت اچھا کھانا کھانے
کو ملے گا۔۔۔۔چاول بھی بس ایسے ہی پکے ہوۓ ہوتے اور دال میں دال کم اور پانی زیادہ نظر ا رہا تھا
اور دال ملی بھی تو اتنے حساب سے کہ سیر بھی
نا ھو سکے۔۔۔۔ جب دوبارا دال مانگنے گئی تو اسے دھتکار دیا کہ تمھیں تو پہلے ہی زیادہ دال چاول دیئے تھے اب
نہیں ملیں گے وہ بچوں کے لیے منت کرنے لگی تو ترس کھا کر تھوڑی دال دے دی گئی۔۔۔۔۔۔
جب اس پاس نظر دوڑائی تو کچھ لوگوں کو تصاویر بنواتے دیکھا اور ان کے ساتھ سب تمیز سے بھی پیش آرہے تھے، باقیوں کے ساتھ بس اسکے جیسا ہی سلوک کیا جاتا رہا۔۔۔۔
وہ یہی سب دیکھ رہی تھی جب اسکے کانوں میں کچھ جملے پڑتے ہیں ارےےے یہ تصویریں تو نیٹ
پہ چلتی ہیں تاکہ انھیں زیادہ پیسہ ملیں، اتنے اچھے اچھے لوگ انھیں پیسہ دیتے ہیں۔۔۔
فرزانہ یہ سب سوچتی اور دیکھتی رہی اور راشن کا انتظار کرنے
لگی کہ کب راشن ملے گا اور پھر دو گھنٹے انتظار کے بعد اسے راشن مل ہی گیا۔۔۔۔۔مگر
جب گھر پہنچی تو پولیس اسکے شوہر کو پکڑ کر لے جارہی تھی پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ اس نے نشے میں قتل کردیا ہے اور ان لوگوں نے اس پر کیس کر دیا ہے
وہ اندر آکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور آج کے دن کے بارے میں
سوچنے لگی کہ یا اللّٰہ بندہ نیکی کرے، لیکن
یہ دکھاوا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔
اے اللّٰہ کتنے ہی میری طرح
غریب اور ضرورت مند لوگ تو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کو جاتے ہی نہیں اور جو جاتے
انکے ساتھ یہ ایسا سلوک کرتے ہیں اصل حقدار
تو رہ جاتے ہیں۔۔۔
خدارا نیکی کریں دکھاوا نہ کریں آسانیاں پیدا کریں لوگوں کے
لئے میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سب جگہ ایسا ہوتا ہوگا لیکن کچھ جگہ ایسے ہی لوگوں کو دکھاوے
کے چکر میں ذلیل کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔
ختم شد