Saraab E Aitbaar Novel By Hamna Hassan Episode 7
Saraab E Aitbaar Novel By Hamna Hassan Episode 7
کمرے میں گہری خاموشی
چھائی ہوئی تھی—دیوار پر لٹکی گھڑی کی سوئیاں بھی جیسے تیز چلنے لگی ہوں۔
ہر ڈیسک پر جھکے ہوئے
چہرے، ہونٹ بھینچے، آنکھوں میں ارتکاز، اور ہاتھوں میں تھمے قلم… وقت جیسے دوڑ رہا
تھا، اور ہر لمحہ کسی خواب کی آخری سانس بن چکا تھا۔
وہ لڑکا — درمیانی قطار کی
آخری ڈیسک پر بیٹھا —
گردن جھکائے، آنکھوں کے نیچے
ہلکے پڑے ہوئے، پیشانی پر پسینہ، اور ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے کاغذ پر چل رہا تھا۔
سوالنامے کے آخری چند سوالات تھے… وہ جن پر کامیابی کی سیڑھی یا ناکامی کی گہری
کھائی کھڑی تھی۔
اچانک…
ٹَن…کی آواز کے ساتھ بیل بجی۔
کمرے میں بیٹھے وجودوں میں
ہلکی سی جنبش ہوئی، مگر اُس نے سر نہیں اٹھایا۔ قلم اب اور تیزی سے دوڑنے لگا تھا۔
دروازہ کھلا۔
سر اندر داخل ہوئے، ہاتھ
میں فولڈر، آواز میں سختی۔
"Stop writing. Put
your pens down. Give me the papers."
وہ چونکا… قلم روکا نہیں،
بلکہ اور تیز کر دیا۔
آواز میں تھرتھراہٹ تھی،
مگر لفظ صاف تھے:
"Sir… just two
minutes. Please."
سر کی آنکھوں میں سختی
ابھری۔
"No extra time.
This is the rule. Give me the paper!"
وہ بدستور لکھ رہا تھا…
سر نے قدم آگے بڑھایا،
غصے میں آ کر اُس کے ہاتھ سے کاغذ جھٹک کر لے لیا۔
کاغذ اُس کے ہاتھ سے
پھسلا…
اور قلم رُک گیا۔
ایک پل کی خاموشی ہوئی—
پھر دفعتاً وہ بھڑک
اُٹھا۔
زور سے ڈیسک پر مکا مارا—
"شِٹ!"
آس پاس بیٹھے طلباء نے یکدم
چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔
کچھ کے چہروں پر حیرت،
کچھ پر تناؤ، مگر اُس نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
وہ اُٹھا۔
اپنا اسٹیشنری باکس سمیٹا،
چہرہ سرخ، آنکھوں میں چمکدار غصہ، اور سانسوں میں تیزی۔
چلتے ہوئے اچانک پیچھے
مڑا،
اور غصے سے اپنی کرسی کو
پیر کی ٹھوکر ماری—کرسی ایک طرف لڑھک گئی۔
قدموں کی آواز کمرے میں
گونجتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ گئی…
اور اُس کے ساتھ کمرے کی
ساکت فضا میں ایک عجیب بےچینی چھوڑ گئی۔
کمرے کا دروازہ زور سے
دھڑاک سے کھلا۔
وہ باہر نکلا تو قدم جیسے
زمین پر نہیں، دھواں چیرتے جا رہے تھے۔
چہرے پر خون دوڑ رہا تھا،
پیشانی پر تیور تنے ہوئے، اور ہاتھ سینے پر بندھے ہوۓ-
"ابے او… کتنا لکھ لیا؟!"
کسی نے پیچھے سے آواز
لگائی۔
وہ آواز عام نہ تھی…
ٹھٹھا، مذاق، اور ہلکی سی چبھتی ہوئی ہنسی کا آمیزہ۔
وہ رُکا۔
نظریں مڑیں، آواز کی سمت۔
سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا—
شاید دوسرے بیچ سے، گلے میں لٹکتی چینز، چہرے پر عجیب سا طنز۔
"اس بار ٹاپ کرنے کا ارادہ
ہے یا فیل ہونے کا"
کچھ طلباء پاس کھڑے تھے،
مگر خاموش تھے۔
وہ ایک قدم آگے بڑھا…
اور دوسرے لمحے اُس لڑکے
کی شرٹ کا گریبان اُس کے ہاتھ میں تھا۔
"زبان سنبھال کے بات کر…
تجھ جیسے چھوٹے دماغ والے لوگ ہی ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں!"
"اوئے! ہاتھ ہٹا!"
لڑکے نے جھٹکے سے ہاتھ
چھڑایا اور سینہ تان کر بولا،
"زیادہ ہیرو نہ بن… تیرا
غصہ تیرے گھر پر چلتا ہوگا!"
یہ سننا تھا کہ…
اُس نے ایک زوردار دھکا
دے دیا۔
"تو چُپ کر… ورنہ اب کے
بعد تیرے جیسے لوگ سیدھے اسپتال سے ٹیسٹ دیں گے!"
چاروں طرف کچھ لمحے کے لیے
سنّاٹا چھا گیا۔
چند لڑکے آگے بڑھے، بیچ
بچاؤ کیا۔
"چھوڑ دو یار… ابھی سر آ
جائیں گے…"
"چلو بھائی… باہر سیکیورٹی
ہے…"
مگر اُس کے سینے میں اب
بھی آگ جل رہی تھی۔
اس نے اس لڑکے کی طرف دیکھا
بھی نہیں… بس جھٹکے سے کندھا جھاڑا، بیگ کمر پر ڈالا اور سیدھا باہر کی طرف بڑھ گیا۔
جاتے جاتے… دیوار پر لگے
نوٹس بورڈ کو ہاتھ مارا۔ کاغذات نیچے بکھر
گئے۔
پھر وہ تیز قدموں کے ساتھ
آگے بڑھ گیا-
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے نیچے دئیے لنک پر کلک کریں
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ