Dushman Jaan Hai Jo Meri Jaan Hai Novel By Ameer Hamza Episode 11
Dushman Jaan Hai Jo Meri Jaan Hai Novel By Ameer Hamza Episode 11
سنیک:-
ڈبی سے سگریٹ نکال کر اس نے سلگایا اور کش
لگا کر دھواں ہوا میں چھوڑدیا اسکی نظر ویسے ہی گوہر پہ تھی پر گوہر بے حس و حرکت
بیڈ پہ سر جھکائے بیٹھی تھی دل آور کو اسکی حالت پہ دلی خوشی ہوئی کیا کہا تھا
اسنے دل آور کو کہ اسے دل آور کی شکل سے نفرت ہے وہ بھوت لگتا ہے اسے دیکھ کر میڈم
کو الٹی آتی ہے اب بیٹھی ہے نا کب سے اسکے
انتظار میں، ضرور گردن اور کمر تو اسکی دکھ ہی گئی ہوگی وہ سوچ کر مزید خوش ہوگیا
پھر بولا
"مبارک ہو شادی میری
جان"۔۔۔۔ اسنے پہلی بار اسے براہ راست مخاطب کیا تھا چہرے پہ اب کی بار
فاتحانہ مسکراہٹ تھی
"اس گھر میں تو تم
آگئی ہو اب تم پچھتاؤ گی کہ تم اس گھر میں آئی ہی کیوں۔؟ میں تمہیں بتاؤں گا کہ کسی
کو برباد کیسے کرتے ہیں کیسے کسی کا جینا حرام کرتے ہیں تمہیں اب سہی معنوں میں
پتہ چلے گا کہ چوہدری دل آور سے الجھنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے"۔۔۔۔ وہ اسی
مسکراہٹ سے بولتا کرسی سے کھڑا ہوگیا تھا سگریٹ کو اسنے ایش ٹرے میں مسل دیا تھا
قدم قدم چلتا وہ بیڈ کے پاس آگیا
"اٹھو ادھر سے کہیں
اور جاکر سو جانا مجھے عادت نہیں ہے اپنی چیزیں شئیر کرنے کی"۔۔۔۔ وہ ابھی
ابھی جو تھوڑے بہت ڈراموں کے سین نور کہ مشورے پہ دیکھ کر آیا تھا اسکے کچھ
ڈائلوگز اسے یاد ہوگئے تھے اسلیے اب وہ انہیں دہرارہا تھا پر گوہر کے وجود میں کوئی
حرکت نہ آئی دل آور کے چہرے پہ ناگواری پھیلی وہ اب چوہدری دل آور کی بات کو ان
سنا بھی کرے گی اتنی ہمت۔؟
"تمہیں کہا ہے میں
نے، اٹھو ادھر سے"۔۔۔۔ اب کی بار وہ قدرِ چلایا تھا پر گوہر ہنوز سر جھکائے ایسے
بیٹھی تھی جیسے سن ہی نہ رہی ہو دل آور کے اندر آگ جل اٹھی اسنے گوہر کو بیڈ سے
کھڑا کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ابھی گوہر کو اسکی انگلیوں نے ہی چھوا تھا کہ گوہر بیڈ
پہ لڑک گئی اسکے چہرے سے اسکا گھونگھٹ ہٹ گیا تھا اسکی آنکھیں بند تھیں دل آور بے
سے ساختہ دو قدم پیچھے ہوا کیا وہ مر گئی ہے۔؟؟؟ دل آور کے دل میں سوال پیدا ہوا
گوہر کا چہرہ سپاٹ تھا آنکھیں بڑی مضبوطی سے بند تھیں دل آور کا دل پہلی بار اتنا
بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔ پر یہ مر کیسے سکتی ہے اس نے تو ابھی اسے ہاتھ بھی نہیں
لگایا بس ڈرانے کے لیے کچھ باتیں کہہ دی تھیں کیا وہ اسکی باتوں سے اتنا ڈر گئی کہ
اسکی سانسیں بند ہوگئیں۔؟؟؟ دل آور نے وہی دو قدم آگے کیے جو ابھی اسنے پیچھے کی
طرف بڑھائے تھے ابھی وہ اپنی تسلی کے لیے گوہر کی نبض چیک کرتا کہ کمرے میں ایک
آواز اٹھی جو۔۔۔۔ جو۔۔۔۔ جو۔۔۔۔ گوہر کے منہ سے آرہی تھی۔۔۔۔ جی ہاں وہ خرانٹے لے
رہی تھی.
ان سب ویب،بلاگ،یوٹیوب چینل اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہےکہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ کتاب نگری اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہونگے۔
Superb epi as always
ReplyDelete