Rooh E Dil By Hina Irshad

Rooh E Dil By Hina Irshad

Rooh E Dil By Hina Irshad

"روحِ دل"

محبت کی جب بھی شروعات ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اس

میں' "میں" فنا ہوتی ہے۔

محبت میں اب' تب' اگر' مگر تو نہیں لیکن "اے کاش" ضرور ہوتا ہے۔

 محبت میں محبوب پاس نہ بھی ہو' لیکن محبوب ساتھ ضرور ہوتا ہے۔

اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم محبت خود اپنی مرضی سے کریں گے تو

یہ اس دنیا کا سب سے بڑا مذاق ہوگا۔

جہاں لفظ محبت آجائے' وہاں اپنی ذات کچھ نہیں ہوتی۔ ہم محبت محرم سے کریں یا نا محرم سے' جہاں عزتِ نفس کو مجروح کر کے' محبت نبھائی جائے تو وہاں ایک وقت ایسا آتا ہے جہاں ہم خود کی ذات کو نگلتے ہیں۔

اک نظر الفت کے لیے ہم اپنے من پسند شخص کے سامنے روتے' ہنستے '  خود کو آزماتے اور کبھی تو گڑ گڑانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے۔

ہے ناں عجیب بات' ہم تو محبت کا پہلا استعارہ' اپنے والدین تک کو فراموش کر دیتے ہیں ۔

ہمیں اک محبت مل جائے تو ہم خود کو بادشاہ تصور کرتے ہیں جبکہ  اک محبت نہ ملنے پہ ہم خود کو فقیر سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔

محبت لفظ فقط ہے ہی کیا؟

م میری

ححب

ب بادشاہی

تتم سے تم تک

محبت اک ایسا تحفہ ہے جو اگر محرم کے روپ میں مل جائے تو معجزہ۔

اس دنیا میں معجزے عام تو نہیں ہیں ناں پاک محبت بھی تو اک وحی ہے جو  عام پہ نہیں بلکہ کسی خاص پہ نازل ہوتی ہے۔

محبت تو ظرف والا ہی کرسکتا اور نبھا سکتا ہے۔

محبت ایک ایسا لفظ اور عمل ہے۔ جس کے پاس سے لفظ مفاد گزر بھی نہیں سکتا۔

محبت پانے کا نام نہیں ہے بلکہ محبت تو خود کو فنا کرنے کا نام ہے۔ کسی کی ہنسی کے لیے اپنے آنسو چھپا کر دل سے راضی رہنے کا نام ہے۔

محبت ایسا نغمہ ہے جس کے دھن پہ آپ رقص کرتے ہیں۔

محبت تو ابتداء و انتہا ہے۔

 محبت تو دعا ہے۔

محبت تو وفا ہے۔

محبت تو آسودگی کا جہان ہے

محبت تو فاتحِ عالم ہے۔

محبت تو اماوس کی رات میں چودہویں تاریخ کا چاند ہے۔

محبت تو دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں ہے۔

محبت دل تو نہیں مانگتی' البتہ دل کی مہار کی طلب ضرور کرتی ہے۔ محبت تو کبھی بھی اختیار نہیں مانگتی' البتہ اعتبار ضرور مانگتی ہے۔ محبت کبھی بھی آپ سے نیند نہیں چھینے گی' البتہ خواب ضرور طلب کرے گی۔ محبت کبھی سوال طلب نہیں کرتی' البتہ محبوب کے سامنے جواب ضرور بنے گی۔ اگر محبت ہو تو' وہ کبھی آپ کا ساتھ نہیں مانگے گی' البتہ وہ آپکو کسی کا ہونے بھی نہیں دے گی۔ محبت الفاظ نہیں مانگے گی' البتہ عمل ضرور طلب کرے گی۔

محبت تو صحیفے کی مانند دل پہ اترتی ہے۔

محبت تو محبوب کے لیے خود ہی وسعت پیدا کر لیتی ہے۔

جس طرح ہمارے پاس ڈھیرے ساری پریشانیوں کے ہوتے ہوئے بھی' ہم خوشیوں کے چند پل گزارتے ہیں۔ ان پلوں کا نام ہی زندگی ہے۔

اسی طرح محبت میں اپنے محبوب کے ساتھ چند لمحوں کو ہی جی لینا ہی محبت ہے۔

ہمیشہ وقت عادتیں اور خواہشیں بدل دیتا ہے لیکن جو روح میں بس جائیں' وہ آخری وقت تک ہم چاہ کر بھی چھوڑ نہیں سکتے۔

من پسند شخص کی بھی مثال سورج کی روشنی کے

  طرح ہے۔

جو ہر حال میں روشنی مہیا کرتا ہے۔

محبتوں میں زوال کیسا

اگر ہو جائے تو سوال کیسا

مل جائے تو گمان کیسا

اگر کھو جائے تو جواب کیسا

محبت کا نشاں صبح کے ستارے جیسا

اگر غروب ہو جائے تو بھی سورج کے جیسا

محبت ایک ایسا عمل ہے۔ جس کے محسوسات سے تو جانور بھی انکاری نہیں ہے۔

ہماری پہلی سانس سے لیکر آخری سانس تک مجبت کے لین دین کا عمل جاری رہتا ہے۔

ہم محبت کو لکھ کر ' سن کر  یا پڑھ کر بیان نہیں کرسکتے ۔

دنیا میں کوئی بھی محبت و عشق کی انتہا نہیں بیان کرسکتا۔

محبت تو ایک صحیفے کی مانند ہے جسے ہم نہ تو اپنی مرضی سے اپنے دل میں اتار سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی محبت کسی کے دل میں محسوس کروا سکتے ہیں ۔

محبت محض  ضد یا پانے کا نام نہیں ہے بلکہ محبت تو طلبِ دعا ہے۔ محبت میں تیری میری نہیں ہوتی۔ محبت تو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہے۔ محبت ملے تو معجزہ نہ ملے تو عشق کا حصول ہے۔

روح اور دل کے تعلق  کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔

اگر دل سے دل لگی ہوتی ہے تو روح  سے عشق ہوتا ہے۔

روح جب اپنی کھوج مکمل کر لیتی ہے تو وہ ہر شے سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ جبکہ یہی فرق تو دل لگی میں ہے۔ دل تو طلب ہونے کے بعد بھی زیادہ کی چاہ رکھتا ہے۔

ہم زبان سے کسی کو بھلانے کا کتنا بھی دعویٰ کرلیں لیکن جن سے محبت ہو' انہیں تو بھلایا بھی نہیں جاسکتا۔ ہم تو  اپنے احساسات بھی نہیں بدل سکتے' کجا کہ کسی سے نفرت کریں۔

 

کتنا مشکل ہے آزمائش میں بھی شناسائی کو برقرار رکھنا

بھلا دینے کا دعویٰ کرکے دل سے ملاقات کرنا

ہمیں لوگ اپنی عادات میں مبتلا کرکے' اپنی مجبوریوں کی خاطر' سب ہم پہ چھوڑ  کر خود چلے جاتے ہیں

دنیا میں سب سے زیادہ پایا  جانے والا نشہ عادت و محبت ہے ان دونوں میں سے زیادہ خطرناک نشہ کونسا ہے؟ اسکا موازنہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بیشک یہ بھی اک تلخ حقیقت ہے کہ اس زندگی میں ہمارا محبت کے بنا گزارہ نہیں ہے لیکن جب ہمیں کسی شخص' چیز یا کسی کی بھی عادت ہو جائے تو وہ ہرمحبت پہ حاوی ہو جاتی ہے۔

ہم کبھی اسکے ہمارا خیال رکھنے پہ محدود ہو جاتے ہیں تو کبھی اسکے جڑنے پہ ٹھہر جاتے ہیں ۔

محبت لینا اور دینا تو انسانی فطرت ہے لیکن ہم خود کسی کو بھی عادتوں میں شمار کرتے ہوئے' مجبور ہو جاتے ہیں ۔

 

اگر محبت ہمیں جینا سکھاتی ہے تو ہمیں عادتیں تھکا دیتی ہیں۔

اک شخص ہمیں سانس کے ساتھ رلاتا ہے تو کبھی دور ہونے کے باوجود ہنساتا ہے لیکن جب ہم حقیقت میں پرواز کرتے ہیں اور ہم اپنی سانس' سانس کو اسکا مقروض تصور کرتے ہیں ۔

محبتیں کہیں  کسی راستے میں چھوٹ بھی جائیں تو بھی ہمیشہ پاس ہونے کا احساس دلاتی ہیں جبکہ عادتیں ہمیں تڑپاتی ہیں اور احساس دلاتی ہیں  کہ ہم کسی کے کتنے عادی ہونے کے بعد' خود کے دل و دماغ سے مجبور ہیں ۔

محبت تو دل سے شروع ہوکر دل پہ ختم ہوتی ہے۔ محبت میں دماغ کا کوئی عمل و دخل نہیں ہے جبکہ عادتیں دل و دماغ سے شروع ہونے والا سلسلہ ہے۔ جو ہمیں ناکارہ ثابت کر دیتا ہے۔

اک شخص ہمیں نارمل سے ابنارمل ثابت کر دیتا ہے۔

نا جانے کیوں یہ عادتیں محبت سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ۔

 ہمیں محبتیں تو کبھی نہیں رلاتی لیکن ہمیں رلاتی تو وہ تمام عادتیں ہیں جن میں ہمیں لوگ مبتلا کر کے چھوڑ جاتے ہیں ۔

ہر شخص یہاں ایک فنکار ہے

رکھتا ہر کوئی اپنے اندر ایک اداکار ہے

ہر شخص یہاں خود کی نظر میں بے عیب ہے

باقی تو سب اس دنیا میں بیکار ہے

کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں پاؤں نہیں تھکتے بلکہ ہماری روح تھک جاتی ہے۔

ہمارے پاس بیشک وہ کندھے ہوں جن پہ ہم کبھی سر رکھ کر روتے' ہنستے' کھیلتے اور اپنی ضد منواتے تھے۔ ایک وقت میں انکے ہونے کے باوجود ہم خود کو ان سے چھپا لیتے ہیں۔

ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں' جو سب ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہوتے۔

ہم انسان ہمیشہ سے ناشکرے ہیں ۔ ہمارے پاس جو ہوگا' ہم اسکا کبھی شکر ادا نہیں کریں گے لیکن جو نہیں ہوگا اسکا ملال کرتے ہوئے' سب گنوا دیں گے۔ پھر جو باقی ہوگا' وہ صرف افسوس ہوگا۔

ہماری زندگی صرف ہماری تو نہیں ہے۔ ہماری زندگی  ہم سے منسلک'  بہت سے حصہ دار ہیں۔

اس دل میں تھا جس کا جتنا حصہ

وہ اپنا حصہ لے گیا

وہ اپنا حصہ لے گیا

چاہے وہ محبت لے گیا

چاہے پھر وہ دھوکا دے گیا

 پھر کوئی ہار گیا محبت

پھر کوئی جیت گیا نفرت

کبھی دیکھا ہے تو نے دل کے تخت سے ٹوٹا شخص

آنسوؤں کو پی کر ہنستا ہوا شخص

مختصر ایام کو طویل کرتا ہوا شخص

سب ہار کر بھی راضی رہتا ہوا شخص

پا کر کھونا شاید مشکل ہے امر

اسی لیے اپنی ذات کو شاید جوڑتا ہے ہر شخص

بقلم حناء ارشاد




1 Comments

Previous Post Next Post