Aliyar teasing Sameen | Romantic Novel | By Zohra Farrukh Hasan Episode ...



" بہت ہو گیا یہ رونا دھونا خود کو ذلیل کروانا اب میں تمھیں دکھا دوں گی مسٹر ایلیار کی میں چیز کیا ہوں، میں اتنی بھی کمزور نہیں کی گھڑی گھڑی ہر کوئی مجھے ذلیل کرتا جائے _" اپنے روم میں آکر ثمین ٹہلتی ہوئی لگاتار اونچی آواز میں بول کر اپنی بھڑاس نکال رہی تھی….. سینے میں جیسے کسی نے آگ لگا دی تھی _برداشت تھی کی اب ختم ہو چکی تھی  اور اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا اب وہ نگار سے یا کسی سے بھی دب کر نہیں رہے گی ________

" اس ایلیار  کی تو…. " موٹی سی گالی دے کر بھی غصہ کم نہیں ہوا…. وہ بہت ہی غصے سے مٹھیاں بھینچ کر اٹھی تھی_ مٹھیاں شاید زیادہ ہی بھینچ لی تھی کی کلائی میں درد سا ہونے لگا تھا _ " اللہ…" اپنی کلائی دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر وہ درد سے کراہی_____

" میں درد سے تڑپ رہی ہوں… بجائے میرا حال جاننے کے بس مجھے ہی باتیں سنایا جا رہا ہے حکم چلایا جا رہا ہے _ کیسے بول رہا تھا بدتمیز… میں کیوں دوں ثبوت… میرا کوئی قصور نہیں…میں کچھ ثابت نہیں کروں گا، اس کی تو….. " اس نے غصے سے ایلیار کی نقل اتارتے گالی بھی دے دی…..

یہ سب بولتے ہوئے وہ یہ بھی بھول گئی کی وہ تو دو دن سے اس کے ساتھ ہاسپٹل میں اس کے ساتھ رہا تھا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے، دن رات پریشان رہا تھا، ساتھ ہی اس کی ناراضگی بھی برداشت کی تھی … اب بھی شروعات اس نے ہی کی تھی وہ بیچارہ تو بس گھبرا کر اس کا حال پوچھ رہا تھا _____

ثمین کلائی چھوڑ کر ایک بار پھر کھڑی ہو گئی _" سارا قصور تمھارا ہے، صرف تمھارا ایلیار زین علی اور اس قصور کے لئے اب میں سبق سکھاؤں گی دیکھ لینا تم…. " وہ ایسے بول رہی تھی جیسے ایلیار اس کے سامنے کھڑا ہو، انگلی اٹھا کر ابھی وہ مڑی تھی کی ایک دم سے چپ ہو گئی _دروازے سے ٹیک لگائے وہ بڑے آرام سے کھڑا اس کی ساری باتیں سن رہا تھا _چہرے پر بس سنجیدگی تھی ______

" تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے روم میں آنے کی.. کیوں آئے ہو …. " ثمین کا پارہ فوراً ہائی ہوا تھا.. بھڑک کر چلائی _____

ایلیار  کچھ بولے بغیر آگے بڑھا…… ثمین پھر سے چیخی… " نکلو میرے روم سے _"انگلی کے اشارے سے دروازے کی طرف اشارہ کیا… ایلیار نے مڑ کر ڈور لاک کر دیا اور پھر سے قدم اس کی طرف بڑھائے _

"باہر میں نے تم سے جو کہا وہ شاید تم نے نہیں سنا تھا _" وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے روک کر طنز سے اسے دیکھ رہی تھی ____

" نہیں سنا تھا نا… پورا کا پورا کان کھول کر سنا تھا _" وہ بس اتنا بولا ______

" سنا تھا تو عمل کیوں نہیں کیا آئندہ سے میرے روم میں داخل بھی مت ہونا، ابھی کے ابھی نکلو باہر _" دانت پیستی وہ بڑے غصے سے دروازے تک گئی تھی.. جھٹکے سے دروازہ کھول کر اسی غصے سے اسے گھورتے ہوئے آگے بڑھی اور پوری قوت سے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکا دینا چاہا مگر ایک اینچ بھی اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں پائی _____

" مجھے اپنے نفس پر قابو نہیں ہے نا اس لئے آیا ہوں…." ثمین کے دونوں ہاتھ اپنے سینے سے ہٹاکر اپنی گرفت میں جکڑ لئے _" نفس پر قابو کیونکر ہو جب  بیوی اتنی حسین ہے میری، بھلے کاغذی صحیح پر ہے تو….. پھر اپنے حقوق لینے میں حرج ہی کیا ہے _ " ایلیار بھرپور طنز بھری مسکراہٹ سے بولتا اسے جھٹکا دے کر اپنے سینے سے لگا چکا تھا _ثمین سر  سے پیر تک  تپ گئی _

" تم… " اس نے  دانت پیستے ہوئے اس کے شانوں کو مٹھی میں دبوچ کر خود کو چھڑانا چاہا… " تم واقعی ایک نمبر کے مکار، دھوکے باز، اور کمینہ اور…. " زبان وہی رک گئی _______

" کہو تو میں آگے بول کر ہیلپ کر دوں _" ایلیار اس کی کمر میں گرفت سخت کرتے ہوئے  مسکرایا _______

" تمھارے جیسے فراڈیہ انسان سے مجھے کوئی ہیلپ نہیں چاہیے، چھوڑو مجھے تم ورنہ وہ تمھاری ممی ہے نا ان کی میں.. " وہ لگاتار اس سے خود کو چھڑاتے ہوئے غصے سے اسے دیکھ بھی رہی تھی ______

" ادب سے وہ تمھاری ساس بھی ہے_ " ایلیار نے آنکھیں دکھا کر تیزی سے ٹوکا ______

" ہاں بس مجھے سکھاؤ ادب…. ان کے آگے تو منھ میں دہی جم جاتا ہے _ جیسے بہرے ہو جاتے ہو _" ثمین سر سے پیر تک جل گئی.. خود کو چھڑانے کی کوشش بھی ترک کر دی.. کلائی میں درد جو ہونے لگا تھا ______

" میں اگر تم دونوں کے بیچ میں بولا تو تیسری جنگ چھڑ جائے گی _اس لئے مجھے اپنی ساس بہو والے ڈرامے میں مت گھسیٹو، تمھارا مسئلہ ہے تم سلجھاؤں میں کچھ نہیں بولوں گا _" ایلیار نے کاندھے اچکاتے ہوئے اسے بازوؤں سے آزاد کر دیا مگر اس کی بات پر ثمین غصے سے سراپا جل گئی ________

" نہیں نہیں…. تم بس کھڑے تماشا دیکھنا کبھی اس رات، کبھی آج اور نجانے کب تک یونہی میری بےعزتی ہوتی رہے گی اور تم بس چپ منھ میں گھنھگنا ڈالے بیٹھے رہنا، _" ہاتھ نچا نچا کر اس سے طنز سے کہتی ایلیار بس اسے دیکھ ہی رہا تھا… جس کا لڑنے میں کوئی جواب نہیں تھا _____

"کبھی دہی، کبھی جھنجھنا اور بھی کچھ ہے جو منھ میں ڈالا جا سکتا ہے بند کرنے کے لئے مجھے بتاؤ تمھارے میں بھی ڈال دوں _" اس کے منھ بنا کر کہنے پر ثمین نے ناک بھو چھڑایی ______

" نکلو میرے روم سے ابھی کے ابھی.." پھر سے اسے دھکا دیتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ رکی _" اور ایک منٹ تمھیں اب نہیں خیال آیا _ کوئی دیکھ لیں گا تو کیا ہو جائے گا، سب کو پتا چل جائے گا نا _تم تو اب الگ ہو چکے ہو مجھ سے _ اب ہم بس نام کے میاں بیوی ہے اور  اپنی ممی سے پوچھا تھا کی نہیں کی میں کاغذی بیوی کے روم میں جا رہا ہوں جاؤ جاؤ پوچھ کے تو آؤ _ "اس کے سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے  بہت پیار سے وہ طنز کرتی اسے دیکھ رہی تھی _ ایلیار نے بس ایک ٹھنڈی سانس بھری اب کچھ اور بول کر اس کا اپنا دماغ چٹوانے کا بالکل موڈ نہیں تھا.. ویسے بھی وہ آفس کو لیٹ ہو رہا تھا ________


Post a Comment

Previous Post Next Post