Chadar By Bint E Zahid

Chadar By Bint E Zahid

Chadar By Bint E Zahid

Novel Name : Chadar
Writer Name: Bint E Zahid
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
Chadar By Bint E Zahid is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

چادر

بنتِ زاہد


میں صبح کا تھکا ہارا ابھی دفتر سے واپس ہی لوٹا تھا۔سامنے ہی صحن میں میری ماں میری پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ بیٹھی اُسے نصیحتیں کر رہی تھیں۔


"مناہل میری جان۔۔۔۔!! ڈوپٹہ اس طرح ٹھیک سے لیا کرو تاکہ کوئی بال بھی نظر نہ آئے اور کندھے بھی اسی چادر سے ٹھیک سے ڈھانپا کرو۔پتا ہے نا اللّٰہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند ہیں جو اُس کا کہا مانے۔"وہ مناہل کی چادر کو ٹھیک کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔


میں اُن کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔میری بیٹی نے مجھے دیکھا تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔میں نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔"مما۔۔۔!! بابا آگئے آگئے۔۔۔۔"مناہل نے خوشی سے پُرجوش لہجے میں شور مچانا شروع کر دیا۔


میں نے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کی جانب دیکھا جو یہ تمام منظر دیکھ رہی تھیں۔ "امی۔۔۔!! مناہل تو ابھی چھوٹی ہے جب بڑی ہو جائے گی تو خود کو اچھے سے ڈھانپنا بھی سیکھ جائے گی۔آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں۔۔۔؟؟"


میری اِس بات پر میری ماں خاموش ہو گئیں۔مجھے لگا میں نے اُنہیں ناراض کر دیا۔


"اچھا امی آپ ناراض تو نہ ہوں۔میں تو بس یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ ابھی چھوٹی ہے اُس میں اتنی سمجھ بوجھ کہاں۔۔۔؟؟"میری ماں میری بات سُن کر خاموش ہو گئیں۔


"ہاشم۔۔۔!!جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں نا تبھی سے انہیں سمجھانا چاہئے وہ سمجھ جاتے ہیں۔جب بڑے ہو جائیں تو وہ اپنی مرضی کرنے لگتے ہیں۔کم سے کم سولہ سال کی عمر تک بچوں کو سمجھائیں، ڈانٹیں مگر جب بالغ ہو جائیں گے تو خود ہی اچھے برے کی سمجھ بوجھ رکھ سکیں گے۔پھر انہیں ہمارا ڈانٹنا سمجھانا اچھا نہیں لگے گا۔"


میری ماں کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔اُن کے آنسوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔میں نے ماں کے ہاتھوں کو نرمی سے تھام لیا پھر عقیدت سے چومنے لگا۔اب اُن کی آواز سسکیوں میں بدل گئی تھی۔وہ کُچھ کہہ رہی تھیں۔


"ہاشم۔۔۔!! اس چادر کا رشتہ ہماری پیغمبرزادیوں سے شروع ہوا تھا اور میرا اس چادر سے رشتہ تب زیادہ مضبوط ہوا جب قیام پاکستان کی بنیاد ہوئی۔ یہ چادر مسلمان عورتوں کی سب سے بڑی ڈھال رہی ہے۔ اس چادر کے لیے مسلمان مردوں،بچوں اور عورتوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔"


اب تو جیسے ان کے آنسوؤں کو راستہ مل گیا ہو۔۔۔۔جیسے دریا کے سارے بند ٹوٹ گئے ہوں۔۔۔۔۔وہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کر کے پھر بولیں۔۔۔۔

 

" تب ہم نے صبر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر اس چادر کو مضبوطی سے پکڑ لیا، جب دشمن اس چادر کو کھینچنا چاہتے تھے اور اس چادر میں چھپی ہوئی بہت سی شہزادیوں کو نوچنا چاہتے تھے۔دشمن نے بہت سی شہزادیوں کی چادر کھینچ کر ان کی عزت کو تار تار کردیا۔ پاکستان بھلا کب آسانی سے بناہے۔ اس کو بنانے کے لیے کتنی بیٹیوں نے اپنی عزتیں قربان کی ہیں، کتنی سہاگنوں نے اپنے سہاگ قربان کیے، کتنی ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کیے اور کتنے بچے یتیمی کی چادر کو اوڑھ کر پاکستان میں داخل ہوئے اور کتنی بیٹیوں نے اپنی چادر کو بچانے کے لئے خود کو بہتے ہوئے دریاؤں اور بہتی ہوئی نہروں کے حوالے کر دیا۔ اس چادر کا رشتہ تو پیغمبر زادیوں سے شروع ہوا تھا اور اس چادر کو صبر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر قیامت تک ہماری بیٹیوں نے قائم رکھنا ہے۔"انہوں نے سر اُٹھا کر میری جانب دیکھا۔آنکھیں ابھی تک بھیگی تھیں۔


" عورت اور چادر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ہم نے اپنی بیٹیوں کو جوان ہونے پر نہیں بتانا کہ اس کا اور چادر کا کیا تعلق ہے بلکہ ہم نے اپنی بیٹیوں کو یہ سبق پڑھانا ہے کہ بچپن سے لے کر قبر تک یہ چادر اس کے لئے کتنی ضروری ہے۔"


یہ سبق صرف ہاشم کی بیٹی کے لیے نہیں تھا ہر اس بیٹی کے لیے تھا جسے چادر بوجھ لگتی ہے۔

ختم_شد🦋

 


Post a Comment

Previous Post Next Post