Main Or Bas Main Zaib Zulafqar

Main Or Bas Main Zaib Zulafqar

Main Or Bas Main Zaib Zulafqar

Novel Name : Main Or Bas Main
Writer Name: Zaib Zulafqar
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
Main Or Bas Main Zaib Zulafqar is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

میں اور بس میں

زید ذوالفقار

 

وہ ایک شہر تھا۔

جیسے عام شہر ہوتے ہیں۔ ہاں ان عام شہروں سے زرا مختلف بھی۔۔۔ پر وہ انکی طرز پہ قائم کیا گیا تھا۔ اسکام نام تھا " خلیہ نگر "

جی ہاں۔۔۔۔ یعنی ایک سیل کا جہان۔۔۔۔

وہ جو آپ میں اور آپ کے آس پاس میں ہر جگہ قائم ہے

تو اس شہر کے وسط میں ایک مرکزہ آباد تھا۔ ایک نیوکلئیس۔ اسکا کام اس شہر میں نظم و ضبط قائم رکھنا تھا۔ کیا، کب، کیوں اور کیسے ہوگا، یہ وہاں طے کیا جاتا تھا۔ ہر چیز کے بارے میں معلومات اور ہدایات وہاں سے نشر کی جاتی تھیں۔ کسی بھی چیز کے بارے میں احکامات وہاں سے ڈی این اے کی شکل میں صادر کئیے جاتے تھے۔ وہ ڈی این اے ان احکامات کو آگے پہنچاتے اور یوں ہر محمکے پہ ایک چیک اینڈ بیلنس قائم رہتا تھا۔

ہر شہر کی طرح وہاں کی بھی انرجی کی ترسیل کے لئیے ایک توانائی گھر یعنی پاور پلانٹ موجود تھا۔ اسکا نام مائٹو کونڈریا تھا۔ اسکے زمہ سارے شہر کو انرجی کی فراہمی کرنا تھا۔ خام مال اس تک پہنچایا جاتا اور وہاں سے انرجی سارے شہر تک پہنچائ جاتی تھی۔ ہر محکمے اور کام کے لئیے اسکی فراہم کردہ توانائی ہی استعمال کی جاتی تھی۔

ایک روز ایسا ہوا کہ مائٹو کونڈریا کو خیال آیا کہ اس سارے شہر کا انحصار تو مجھ پہ ہے۔ میں توانائی پیدا کرتا ہوں اور سب کو پہنچاتا ہوں۔ میں نا ہوں تو سب دھرے کا دھرا رہ جاۓ۔ اب اصول کی بات کریں تو اس شہر یعنی خلیے کا مرکزہ مجھے ہونا چاہیئے۔ جتنی اہمیت نیوکلئیس جو دی جاتی ہے، اس سے زیادہ کا مستحق میں ہوں۔

اب اس نے اس بات کا اعلان کردیا کہ مجھے اس شہر میں مرکزہ تسلیم کیا جاۓ۔ آج سے یہاں ہا ہیڈ میں ہوں گا۔ سب میرے ماتحت کام کریں گے۔ وہ ساری اہمیت جو نیوکلیس کو حاصل ہے اب سے مجھے دی جانی چاہئیے۔ اور جب تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا، میں کسی کو توانائی فراہم نہیں کروں گا۔

سارے شہر میں سنسنی پھیل گئی۔ انرجی کی ترسیل رک گئی۔ مرکزے میں فوری اجلاس بلوایا گیا۔ ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ نئی ہدایات کو ڈی این اے کے ذریعے مائٹو کونڈریا تک بھجوایا گیا۔ بہت ساری پروٹینز قاصد بن کر پہنچی تھیں لیکن اس نے سب کا داخلہ بند کر رکھا تھا۔

" مجھے اس شہر کا سب سے اہم محمکہ قرار دیا جاۓ۔ میں سب سے زیادہ محنت کرتا ہوں لیکن نام نیوکلیس کا آتا ہے۔ وہ کرتا ہی کیا ہے۔ بس یہاں وہاں حکم دینا ؟؟؟ نہیں۔ اب بس میں حکم دوں گا۔ اور جب تک سب یہ بات نہیں مانیں گے، میں کسی کو توانائی نہیں دوں گا "

اب شہر میں ہر شے کو توانائی چاہئیے تھی۔ جتنی جمع شدہ توانائ تھی، وہ استمعال ہو چکی تھی۔ باہر سے آنے والے انرجی کے پیکٹ بہت کم تھے۔ سب سے پہلا اثر شہر کے صفائی کے محمکمے، لائسو سومز پہ ہوا۔ وہ شہر میں کوڑا کرکٹ، فاسد مادوں اور زہریلی اشیاء کو تلف کرتے تھے۔ انکا کام رکا تو یہ اشیاء بڑھنے لگیں۔ سب کو نقصان ہونے لگا۔ کھانے کی فیکٹریاں رائبو سومز بند پڑ گۓ۔ خوراک کی قلت ہو گئی۔ اب خوراک کے لئیے، کھانے کے طور پہ شہر کی ہی چیزوں پہ ڈاکے پڑنے لگے۔ درامدات اور برآمدات بھی کم پڑنے لگیں کہ انکو شہر کی فصیل میں داخل ہونے کے لئیے توانائی چاہئیے تھی۔

نیوکلئس پیغام بھجتا رہا۔ مائٹو کونڈریا کی ہٹ دھرمی وہیں تھی۔ اسے اپنی ذات پہ مان تھا۔ وہ سب کو طنزیہ دیکھتا اور کہتا، دیکھا میرے بغیر تم سب کا کام نہیں ہو سکتا۔ تم سب مجھ پہ منحصر ہو۔ اب بدلے میں، میں کچھ مانگوں بھی نہیں۔۔۔۔۔

اب خلیہ نگر میں فاسد اور زہریلی اشیاء کی بہتات تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء تیزی سے ختم ہو رہی تھیں۔ توانائی نا ہونے کے برابر تھی۔ ارد گرد کے شہروں کے لئیے وہ شہر خطرہ بن سکتا تھا۔ وہاں مدافعتی نظام کی طرف سے رینجرز اور سپاہی اکٹھے ہونے لگے۔

پیغامات بھیجے گۓ۔ صورتحال کو جانچا پرکھا گیا۔ مائٹو کونڈریا کی ہٹ دھرمی جوں کی توں تھی۔ اندر بیشتر ادارے اور محمکے تباہ ہو چکے تھے۔

مائٹو کونڈریا کے پاس اپنا آپ چلانے کے لئیے بھی توانائی کم پڑنے لگی۔ اس نے اپنے لئیے توانائی بنانا چاہی تو خوراک موجود نہیں تھی۔ خوراک فیکٹریاں تو ختم ہو چکی تھیں۔ اس نے جمع شدہ خوراک کو استمعال کرنا چاہا لیکن اسکا طریقہ اسے پتہ نہیں تھا۔ اسکے لئیے ہدایات مرکزہ سے آنا تھیں۔ وہاں سے آنیوالے ڈی این اے وہ خود سمجھ نہیں سکتا تھا۔ جیسے تیسے باقی بچ رہ جانے والے رائبو سومز نے خورا بنائی لیکن اسکی پیکنگ کرنے والی فیکٹری گالجی اور اینڈوپلاسمک بند تھے۔ اس خوراک پہ باہر ہی اینزائمز نے حملہ کر کے اسے ختم کردیا تھا۔ اب اسکے ہاتھ پاؤں پھول گۓ۔

سیل کے باہر بھاری تعداد میں سپاہی تعینات تھے۔ وہ ارد گرد کے خلیوں کے لئیے خطرہ بن چکا تھا لہذا اسکا خاتمہ کرنا لازمی بن گیا تھا۔

فصیلیں توڑ دی گئیں۔ ہدایات دی گئیں کی بچی کھچی فیکٹریاں بند کردی جائیں۔ مرکزہ خود کو ختم کر چکا تھا۔ اب کسی کے پاس کوئی ہدایت نہیں تھی۔ سپاہیوں نے دھاوا بول دیا۔ ہر شے کو ختم کردیا گیا۔

تکبر سے ایستادہ بے وقوف مائٹو کونڈریا بھی منہدم کردیا گیا تھا۔ وہ سارا شہر ایک ادارے کے غرور اور ہٹ دھرمی نے تباہ کردیا تھا۔

ایک فرد کا تکبر بس اسکی انفرادی تباہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے خاتمے کی وجہ بن جاتا ہے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکبر نا کرو ( سورت النحل آیت نمبر 23 )

Post a Comment

Previous Post Next Post