Ibn E Aadam Written By Misha Batool

Ibn E Aadam Written By Misha Batool

Ibn E Aadam Written By Misha Batool


ابنِ آدم سمجھتا ہے کہ اچانک موت صرف دوسروں کے لیے ہوگی جہنم میں صرف دوسرے لوگ جائیں گے _ مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا لیکن تھا۔۔۔۔میں دیکھ رہی تھی ابنِ آدم کوجو مسلسل پیسوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا جس کے ذہن میں مستقبل کی تمام منصوبہ بندی طے تھی _ایک خوشحال مستقبل! جس کے لیے ابنِ آدم کو پیسہ چاہیے تھا بہت پیسہ! جس کے لیے وہ محنت کر رہا تھا کسی نے کہا ڈگری لے لو سرکاری نوکری مل جائے گی ساری زندگی سکون سے رہو گے! ساری زندگی؟سکون؟ اللّٰہ کے بغیر سکون؟ خیر پھر پیسے کے لئے ابنِ آدم نے خالق حقیقی کو بھلا دیا اور مخلوق کے پیچھے بھاگنے لگا اسے لگا سکون پسے میں ہے اور پیسہ لوگوں پاس ہے پھر کیا تھا ابنِ آدم نے حلال حرام کو سائیڈ پہ رکھا اور ہر وہ کام کرتا چلا گیا جس سے اسے لذت مل رہی تھی! دنیاوی لذتیں!! شاید اس نے پھر خالق حقیقی کو بھی سائیڈ پہ کر دیا تھا لیکن وہ کہتے ہیں نہ کچھ دعائیں ابنِ آدم کا بخت سنوار دیتی ہیں ایسا ہوتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا کسی نے اسے کہہ دیا"جا

وے! اللّٰہ تینوں ہدایت دے! شاید قبولیت کا وقت تھا اور دعا سن لی گئی اور اس ابنِ آدم کو ہدایت مل گئی اور وہ ابنِ آدم آج بھی بھاگ رہا ہے لیکن اب وہ اصل سکون کے پیچھے بھاگ رہا ہے اللّٰہ کو تلاش رہا ہے گناہ زیادہ ہیں اور گناہوں کا تو بوجھ بھی ہوتا ہے لہٰذا اب وہ گناہوں کے ساتھ اللّٰہ کے سامنے جاتا ہے روتا ہے معافی مانگتا ہے اور پھر روتا رہتا ہے لیکن اب اسے یقین آگیا ہے کی ایک دن اس نے بھی مر جانا ہے _ اچانک!! اب وہ ابنِ آدم ہر آہٹ پہ ڈر جاتا ہے اسے لگتا ہے موت کا فرشتہ آگیا ہےاپنی ہر سانس اسے آخری سانس لگتی ہے ایسے ہدایت یافتہ ابنِ آدم ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں جنہیں ہم میں سے اکثر لوگ انہیں یہ کہتے ہیں " اینوں ویکھ لو ساری زندگی مسجد نیں وڑیا ہن نمازاں دا یاد آیا اے اہنوں!“ "ایڈا اے دیندار “وغیرہ!! خیر یہی تو ریت ہے دنیا کی

 

ازقلم: میشا بتول

Post a Comment

Previous Post Next Post