Khizaa Ke Phool Written By Adan Rehan

Khizaa Ke Phool Written By Adan Rehan

Khizaa Ke Phool Written By Adan Rehan

__"خزاں کے پھول"__

 

مصنف کا نام: عدن ریحان عباسی۔

                 ( کالم  )       

_________

خلاصہ تحریر :-

یہ تحریر مرجھائے ہوئے پھولوں کے کیے امید کی کرن جیسی ہے۔ جیسے مرجھائے اور سوکھے درختوں اور پودوں پر بہار اترتی  ہے۔ یہ تحریر ٹوٹے اور مرجھائے دلوں کے لیے امید اور بہار کی مانند ہے۔

آج میں یہ بات کہنے کے قابل ہوئی ہوں کہ سدا انسان کی قسمت ایک سی نہیں رہتی، کبھی تو قسمت آپ کے دروازے کھٹ کھٹاتی ہے۔ اپنی قسمت سے ناراض نہ ہونا ورنہ یہ تمھیں چھوڑ جائے گی، نہ ہی دستک دے گی نہ کبھی دوبارہ لوٹے گی۔ "مایوسی کفر ہے"۔ کبھی اپنی قسمت سے مایوس نہ ہونا۔ کبھی تو قسمت کھلے گی آپ کی، کبھی تو بدلیں گے دن۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!

_________

 

انتساب:

 

یہ تحریر میرے دادا جان "محمد سرور خان عباسی(مرحوم)" کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

 

_________

تحریر:-

 

کیسے ہستی بستی بہار پہ اترتی ہے اک خزاں، خزاں بھی ایسی کہ پتے چھوڑ دیتے ہیں ساتھ ھر ایک درخت کا۔ خزاں کی فضاء میں کیا بوجھل پن ہے کہ ھر طرف زرد پتوں کے ڈھیر۔ فضاء جیسے ناراض ہے چمن سے،بہار جیسے بدگمان ہے گلوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!

جیسے ہی خزاں کا موسم اترتا ہے اک گلستان میں ہر طرف سوکھے زرد پتوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ  جب درختوں کے پتے سوکھ کر گر جاتے ہیں، کھلے ہوئے پھول مرجھا جاتے ہیں، سرسبز ٹہنیاں سوکھ کر کانٹا ہو جاتی ہیں تو کیا درخت ناامید نہیں ہوتے؟ کیا آپ نے دیکھااور سنا ہے کہ گلشن اپنے رب سے شکوہ کر رہے ہوں اتری ہوئی خزاں کا، وہ شکوہ کر رہے ہوں اپنے اجڑنے کا، شکوہ کر رہے ہوں  چھوڑ جانے والوں کا، کیا انہوں نے شکوہ کیا اپنے رب کی رضا کا؟؟؟؟؟؟؟

 

نہیں۔۔۔۔۔۔!!!

 

گلشن اپنے اجڑ جانے پہ ناامید نہیں ہوتے، اپنے کے چھوڑ جانے پہ ناامید نہیں ہوتے، پتے جھڑنے پہ ناامید نہیں ہوتے۔ وہ اپنے پروردگار کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ جو اللہ نے ان کے لیے چنا اس سے منہ نہیں پھیرتے اور نہ ہی پروردگارے عالم سے شکوہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آپ تو انسان ہیں۔ اشرف المخلوقات ہیں۔ تو آپ کیوں اپنے رب کے فیصلوں سے بےزار ہیں۔ کیوں اپنے رب کے فیصلوں پر شکوہ کرتے ہیں۔ کیا گلشن پر اترتی خزاں کی مثال نہیں سمجھے۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟

ایک درخت اپنے رب سے اپنے اجڑ جانے کا شکوہ کیوں نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنے رب کو جانتا ہے اس پر توکل رکھتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ ایک دن اس پہ آئے گی بہار، ایک دن پھر کہلیں گے پھول، ایک بار پھر گلشن مہکے گا، ہریالی ایک بار پھر اس کا مقدر بنے گی۔ گلشن اپنے رب سے کبھی مایوس نہیں ہوتے وہ جانتے ہیں ھر خزاں کے بعد پھول کہلیں گے گلشن مہکے گیں۔وہ اپنے رب کے فیصلوں سے ناامید نہیں ہوتے کیونکہ  وہ صابر اور شاکر رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

 

اسی طرح انسان پر بھی آزمائشیں آتی ہیں۔ ہر ہستی بستی بہار، خوشیوں بھری زندگی میں کبھی نہ کبھی تو غم اور آزمائش آتی ہے، جب انسان بےبس ہو جاتا ہے اور مایوسیوں کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنے رب سے اور اس کی رضا سے مایوس ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے بہت دور چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقول نمرہ احمد:

"لوگ کہتے ہیں زندگی میں یہ ضروری ہے اور وہ ضروری ہے۔ میں تمہیں بتاؤں زندگی میں کچھ بھی ضروری نہیں ہوتا۔ نہ مال، نہ اولاد، نہ رتبہ، نہ لوگوں کی محبت......... بس آپ ہونے چاہییں اور آپ کا اللہ سے ایک ہر پل بڑھتا تعلق ہونا چاہئیے۔ باقی یہ مسلے تو کسی بادل کی طرح ہوتے ہیں۔ جہاز کی کھڑکی سے کبھی نیچے تیرتا کوئی بادل دیکھا ہے؟ اوپر سے دیکھو تو وہ کتنا بےضرر لگتا ہے مگر جو اس بادل تلے کھڑا ہوتا ہے نا اس کا پورا آسمان بادل ڈھانپ لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ روشنی ختم ہوگئی، اور دنیا تاریک ہوگئی...... غم بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جب زندگی پہ چھا جاتے ہیں تو سب تاریک لگتا ہے لیکن اگر تم اسے زمین سے اوپر اٹھہ کر آسمانوں سے پورا منظر دیکھو تو تم جانوگے کہ یہ تو ایک ننھا سا ٹکڑا ہے جو ابھی ہٹ جائے گا۔۔۔ اگر یہ سیاہ بادل ہماری زندگیوں پر نہ چھائیں نا تو ہماری زندگی میں کبھی رحمت کی بارش نہ ہو"۔۔۔۔!!!

      (جنت کے پتے از نمرہ احمد)

 

آزمائشیں انسانوں کے لئے ہی بنی ہیں۔ آزمائش بھی انہی لوگوں پر آتی ہیں جو انہیں برداشت کر سکتے ہیں۔ اللہ ھر کسی پر اس کی برداشت کے مطابق آزمائش اور غم بھیجتے ہیں۔ زندگی امتحان کی جگہ ہے جس نے یہ امتحان خوش وخضوع کے ساتھ پاس کر لیا وہ اعلٰی درجے پر فائز ہوگیا۔ اور جو اس امتحان میں ناکام ہو گیا وہ دنیا و آخرت میں پیچھے رہ گیا۔۔۔

اپنے رب کی طرف سے دی گئی آزمائش پر گلہ نہ کریں بلکہ ھر حال میں الحمدللہ کہیں۔ اپنے رب سے اپنی محرومیوں کے شکوے نہ کریں۔ امید رکھیں کہ اک دن سب ٹھیک ہو جائے گا آزمائشیں بھی ختم ہو جائیں گی اور آپ سرخرو بھی ہو جائیں گے۔

وہ بڑے کہتے ہیں نا؛

"سدا وقت ایک سہ نہیں رہتا"

تو وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ وقت اور حالات بدلتے ہیں۔ آج حالات آپ کے ہاتھ میں نہیں لیکن انشاءاللہ  ایک دن حالات آپ کے ہاتھ میں ہوں گے۔ "ھر خزاں کے بعد بہار آکر ہی رہتی ہے، پھول کہل کے کی رہتے ہیں، ھر رات کے بعد روشن سویرا ہو کر کی رہتا ہے۔"

 

یوسف(عہ) کی طرح ھر اندھیرے کنویں اور اور قید خانے سے رہائی مل سکتی ہے۔

 

یاقوب(عہ) کی طرح آپ کو بھی یوسف مل سکتاہے۔

 

یونس(عہ) کی طرح مچھلی کے اندھیرے پیٹ سے نکل سکتے ہیں۔

 

 نوح(عہ) کی طرح آپ کی کشتی کو کنارہ مل سکتا ہے۔

 

 ابراہیم(عہ) کی طرح آگ آپ کو جلا نہیں سکتی۔

 

اسماعیل(عہ) کی طرح بھیڑ کا بچہ جان بچا سکتا ہے۔

 

اپنے رب سے ناامید نہ ہوں اور پروردگار پر پختہ یقین رکھیں وہ آپ کی آزمائش اور تکلیفیں ایک دن ختم کر دے گا۔ آپ اشرف المخلوقات ہیں اپنے اوپر مایوسی اور ناامیدی کو حاوی نہ ہونے دیں بلکہ پریشانیوں اور آزمائشوں پر حاوی ہو جائیں۔۔۔۔۔

 

   " رکھ نہ رکھ،

   پیوستہ رہ شجر سے امیدے بہار رکھ،"

 

_________

دعا ہے کہ اللہ تعالٰی آپ سب کی تکلیفوں، آزمائشوں اور پریشانیوں کو دور فرمائے اور آپ کو زندگی کے ان امتحانوں میں سرخرو فرمائے اور ہمیشہ ثابت قدم رکھے۔۔۔۔۔۔۔(آمین ثم آمین)

 

 

___________

 

             ** ختم شدہ**  ___________



Post a Comment

Previous Post Next Post