Sheh Maat Novel By Fareeha Mirza Chapter 4
Sheh Maat Novel By Fareeha Mirza Chapter 4
مفرور ہو؟" اس نے
آواز سنی۔ دھیرے سے پلکیں اٹھائیں۔ کوئی اس سے مخاطب تھا۔ وہ اس کے سامنے واے ستون
سے اسی کے انداز میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اپنی جسامت سے وہ قدرے بڑے قد کا آدمی
معلوم ہوتا تھا۔ اس کی عمر کیا تھی ۔۔۔وہ اندازہ نہیں لگا پائی تھی۔مگر وہ کافی
بوڑھا معلوم ہوتا تھا۔جسم پر معمولی سے کپڑے تھے۔ سفید داڑھی، جھریوں زدہ چہرہ اور
سیاہ آنکھیں۔ کچھ تھا اس میں بہت عجیب سا۔ وہ لمحوں کے لیے اس سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔
"پناہ گزین ہوں ۔" اس
نے جواب دیا اور چہرہ پھیر لیا۔
"آہ! ستم دیدہ۔"
بوڑھا افسوس سے مسکرایا۔
وہ خاموش رہی۔ گردن موڑے
گرتی ہوئی بوندوں کو دیکھتی رہی۔ ٹپ ٹپ ۔۔۔پانی کے گرنے کی آوازیں۔۔۔۔مدہم سا شور۔
اس نے زرا کی زرا گردن سیدھی
کر کے بوڑھے کو دیکھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ کمر ستون سے ٹکا
رکھی تھی۔
"محو تماشہ ہو؟" اس کی
آواز سن کر بوڑھے نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ اسے اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا پا
کر مسکرایا۔ "نہیں ۔۔۔محو دعا ہوں۔"
"کیا مانگ رہے تھے؟"
بس ہے اک تمنائے
خام۔" وہ جو کوئی بھی تھا گہری اردو استعمال کرتا تھا۔ اور وہ اس سے اسی کی
زبان و انداز میں کلام کر رہی تھی۔
"قبول ہوئی؟" پھر
پوچھا۔
"ہاں۔۔۔۔ہو گئی۔"
بوڑھے نے کہا۔ وہ ناسمجھی
سے اسے دیکھتی رہی۔
"تم ہو کون؟"
"بس ہوں کوئی۔"
اس کا جواب غیر واضح تھا۔
"میرے پیچھے آئے ہو؟"
وہ پتہ نہیں کیوں سوال
کرنے لگی تھی۔
"نہیں۔"
"مگر پہلے تو یہاں تم نہیں
تھے۔" وہ مطمئن نہیں ہوئی ۔
"نہیں تھا۔۔۔اب ہوں۔"
اس کا جواب گہرا تھا۔
"اور کب تک رہو گے؟"
"جب تک وقت نہیں آئے گا۔"
وہ اسے سمجھ نہیں پا رہی
تھی۔
"دیوانے ہو؟"
"خود سے بھی بیگانہ ہوں۔"
خاموشی۔۔۔برستی
بارش۔۔۔پراسرار چہرہ۔۔۔
"پھر کیا ہو؟" آنکھیں
سوالیہ ہوئیں۔
"بس اک جاہل فلسفی۔"وہ
جواب زبان پر لے آیا تھا۔
"تم فلسفی ہو؟ کیا ثبوت
ہے؟" شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں جاہل بھی ہوں۔ یہی میرے
فلسفی ہونے کا ثبوت ہے۔"
وہ حیران رہ گئی تھی۔ اسے
اپنا آپ لاجواب ہوتا محسوس ہوا تھا۔
"کیا تم کوئی بزرگ ہو؟"
"میری عمر تو یہی بتاتی
ہے۔"
"پھر کیا کرتے ہو؟"
"انتظار۔"
"کس چیز کا؟"
"تغیر کا۔"
"تم تغیر کو کس چیز سے
مماثلت دیتے ہو؟"
"وقت سے۔ جو کبھی ٹھرنے
والی شے نہیں۔ جس کی فطرت میں ہر پل بدلائو ہے۔"
خاموشی ۔۔۔۔
"تم کیا کرتی ہو؟" اب
اس کی باری تھی۔
"انتظار۔"
"کس کا؟"
"عدم ہونے کا۔"
وہ خاموشی سے اسے دیکھتا
رہا۔ بوندیں گرتی رہیں۔ وقت ٹھر گیا تھا۔
"عدم؟"
"ہاں۔۔۔مجھے اپنے وجود کو
عدم کرنا ہے۔"
بوڑھا فلاسفر چند لمحے
اسے دیکھتا رہا تھا۔ جیسے اسے اندر تک پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
"کیا تمہیں معلوم
ہے"وجود و عدم" کیا ہے؟"بہت دیر بعد اس نے سوال کیا تھا۔ وہ چونک
کر اسے دیکھتی رہی تھی۔ وہ اپنی زیرک نگاہیں اس پر جمائے کہہ رہا تھا۔ "تم ایک
وجود رکھتی ہو۔ تم اسے عدم کرنا چاہتی ہو۔ کیا تم اپنے ہی وجود کی نفی کر رہی ہو؟"
"کیا اس بات سے کوئی فرق
پڑتا ہے کہ میرا وجود بھی ایک "وجود" رکھتا ہے؟" اس نے جوابا تلخی
سے کہا تھا۔ "مجھے نہیں لگتا ہے کہ کائنات میں میرا بھی کوئی وجود ہے۔"
وہ پھر بولی تھی اور طنزیہ نظروں سے بوڑھے فلاسفر کو دیکھا۔
"تمہاا وجود ایک
"وجود" رکھتا ہے۔ اور تم اس بات کا شعور رکھتی ہو۔" بوڑھے فلاسفر
نے جتانے والے انداز میں کہا۔
"تمہارا شعور اس بات کا ثبوت ہے کہ تم
ایک وجود رکھتی ہو۔ تم زندہ ہو۔ ایک جیتی جاگتی انسان ہو۔"
شیش محل کے در و دیوار دم
سادھے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔
"تم موجود ہو۔" بوڑھے
نے پھر کہا۔ "کوئی شے جس کا "وجود" نا ہو وہ "عدم" نہیں
ہو سکتی۔"
"وجود کی "موجودگی"
وجود کا ثبوت نہیں ہوتی۔"
بوڑھے نے چونک کر اسے دیکھا
پھر مسکرایا۔ وہ ذہین تھی۔ اس کے پاس جواب تھے۔
"وجود سے ماورا کوئی شے نہیں
ہوتی۔ عدم اور وجود ایک دوسرے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔" وہ پھر بولا تھا۔ وہ
کچھ الجھ کر اسے دیکھتی رہی تھی۔
"کیا میں تمہیں
سمجھائوں؟" اس کی الجھن پر بوڑھے نے کہا۔
"ہاں ۔۔۔" اس نے
اثبات میں سر ہلایا۔ وہ متجسس تھی۔ سننا چاہتی تھی۔ جاننا چاہتی تھی۔ کائنات کے
راز اس کے لیے ہمیشہ سے پرکشش رہے تھے۔ اسے احساس نہیں ہوا تھا کبھی کہ اس کا اپنا
وجود بھی کائنات کے رازوں میں سے ایک راز ہے جس کے جواب فلسفی آج تک تلاش کرتے آئے
تھے۔
"کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس
سوال کا جواب میں تمیں نہیں سمجھا سکتا؟" بوڑھے فلاسفر کی مسکراہٹ پر اسے کچھ
عجیب لگا۔
"کیا مطلب؟" وہ پھر
الجھی۔
"مطلب یہ کہ انسان کو اپنے
وجود کی تلاش کے بعد اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ وہ کون ہے۔ اور جب انسان خود کو
جان لیتا ہے تو اس پر وجود و عدم کے راز کھل جاتے ہیں۔" بوڑھا بولتے بولتے
خاموش ہوا تھا۔
"کیا کبھی کوئی خود کو بھی
جان پایا ہے؟" وہ بڑبڑائی تھی۔
"اس سوال کا جواب فطرت سے
ہی موصول ہوتا ہے۔" وہ غور سے اسے سن رہی تھی۔ "مگر پاگل پن کے بعد۔"
"میں پاگل نہیں ہوں۔"
وہ پتہ نہیں کیوں ایک دم چلائی تھی۔
"تم انتہا پر جا کر سوچتی
ہو۔" بوڑھے نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"عشق کی انتہا جنون ہے۔
پاگل پن۔ اپنے آپ کو کھو دینا۔ کائنات کا کوئی بھی جزبہ خواہ وہ محبت ہو یا نفرت،
رنج ہو یا خوشی ۔۔۔جب انسان کے اندر حد سے بڑھ جاتا ہے تو پاگل پن کی انتہا کو چھو
لیتا ہے۔ پھر انسان اپنے عقل و شعور میں نہیں رہتا۔"بوڑھا فلاسفر بولتا رہا تھا۔
وہ اسے سنتی رہی تھی۔ دماغ میں اس کی باتوں کو سوچتی رہی تھی۔
ایک لمبے توقف کے بعد اس
نے لب کھولے تھے۔
" مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں
موجود و لا موجود (Existence and non existence) کے گرداب میں بے مقصد
بھٹک رہی ہوں۔ میں اپنے وجود کی وجہ تلاش کرتی ہوں۔ مگر جاننے سے قاصر ہوں۔ میں اس
طرح بے مقصد بھٹکتے ہوئے تھک چکی ہوں۔ کبھی میں خدا کو آواز دیتی ہوں۔ پھر خود ہی
اس کے وجود سے انکار کرتی ہوں۔ کبھی کتابوں کے اوراق پلٹتی ہوں تاکہ اپنی بے مقصد
ذات کے ثبات جان سکوں۔ مگر میں ناکام رہتی ہوں۔ میرا دماغ عجیب و غریب سوچوں میں
گھرا رہتا ہے۔ میرا شعور مجھ سے سوال کرتا ہے۔ میں کون ہوں۔ کہاں سے آئی ہوں۔ مجھے
اس دنیا میں کون لایا ہے۔ میں جس دنیا میں رہتی ہوں اس کا خالق کون ہے۔ وہ میری
نظروں سے پوشیدہ کیوں ہے۔ وہ میری پکار کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ اس نے مجھے دنیا میں
لانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کیوں نہیں کیا۔ اس نے مجھے دنیا میں کیوں بھیجا ہے۔ اس
نے مجھے زندگی ہی کیوں دی ہے اگر موت سے ہمکنار کرنا تھا۔ میرا وجود
"وجود" ہی کیوں رکھتا ہے اگر اسے عدم ہونا ہے؟"
وہ ٹھر ٹھر کر بول رہی تھی۔
اس کے انداز میں عجیب سی الجھن تھی۔ جیسے اس کے اندر کی سوچوں نے اسے تھکا ڈالا
تھا۔
"مجھے یہ بات بہت ذیادہ
وحشت زدہ کرتی ہے کہ میرا وجود سانس لے رہا ہے اور ایک دن میری سانسیں ساکن ہو جوئیں
گی۔ ایک دن میں مر جائوں گی۔ ایک دن میں زندہ نہیں رہوں گی۔" وہ اپنے خوف کو
لفظوں کے سہارے اس تک پہنچا رہی تھی۔ اسے بتا رہی تھی کہ اس کے محسوسات کیا تھے۔
"وجود" و
"عدم" ۔۔۔یہ کتنے سادہ مگر معنی سے بھرے الفاظ ہیں۔ زندگی اور موت
۔۔۔دونوں ساتھ ساتھ۔ جیسے کسی سکے کے دو چہرے ہوں۔"
"کیا تم نے کبھی اپنے وجود
کو عدم کرنے کی کوشش کی؟" بوڑھے فلاسفر کے سوال پر اس کی آنکھوں کی پتلیاں
لمحوں کے لیے ساکت ہوئی تھیں۔ پھر اس نے کہا تھا۔ "ہاں۔"
"میں نے ایسا کرنے کی کوشش
کی ہے۔۔۔۔میں خودکشی نہیں کرنا چاہتی۔ مگر اپنے وجود کو عدم کر دینا چاہتی ہوں۔ یہ
بہت مشکل ہے۔ زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔" وہ چپ چاپ اسے سنتا رہا تھا۔ بغیر
روکے، بغیر ٹوکے۔ چہرے پر کچھ نہیں تھا۔ نا غصہ، نا ملامت۔
"تم اپنے وجود کا مقصد
جانتی ہو؟"
کچھ لمحوں کی خاموشی کے
بعد اس نے کہا تھا۔
"نہیں۔"
"ڈھونڈنے کی کوشش کی؟"
"پتہ نہیں۔"
"کوشش نا کرنے سے دل بیمار
ہو جاتا ہے۔ اور دل بیمار ہو جائے تو وجود بھی بیکار ہو جاتا ہے۔"
وہ خاموش رہی۔ پھر بولی۔
"میرا کوئی مقصد نہیں ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ بھی کر لوں بدلے میں مجھے صرف خالی پن ہی ملے گا۔ کچھ
محسوس نہیں ہو گا۔"
بوڑھا فلاسفر سنجیدگی سے
مسکرا کر گویا ہوا۔
"ہر چیز کے بدلے میں کچھ
نا کچھ ضرور ملتا ہے۔ اور کچھ چیزوں کے بدلے میں آپ کو صرف "خالی پن" کا
احساس ملتا ہے۔"
اس نے چونک کر اسے دیکھا
تھا۔ کیا کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کا جواب اس شخص کے پاس نہیں تھا؟
"جاننا نہیں چاہو گی؟"
"تم جانتے ہو؟"
"صرف "تم" جانتی
ہو۔" وہ اپنے الفاظ پر زور دے کر بولا تھا۔
"کیا مجھے اپنے وجود کا
مقصد خود تلاشنا ہو گا؟"
"ہاں۔"
"مگر کیسے؟"
"محنت سے۔"
"مگر محنت کے لیے ایک سمت
کا تعین ضروری ہے۔" وہ بولی۔۔۔"اور سوچنے کے لیے عقل۔۔۔مجھے کیسے معلوم
ہو گا کہ کس سمت میں جانا ہے؟" اس کے دماغ میں بہت سارے سوال تھے۔
"عقل سمت متعین نہیں کرتی۔
بلکہ متعین سمت کے دائرے میں عقل حرکت کرتی ہے۔"بوڑھے فلاسفر کے پاس ہر سوال
کا جواب تھا۔ "پہلے اپنا مقصد ڈھونڈو۔ پھر سوچو کہ اس مقصد کا کیا مقصد ہے۔ یہ
تمہیں کہاں لے کر جائے گا۔ بدلے میں کیا ملے گا۔ منزل کیسی ہو گی۔"
"مگر منزل بند گلی بھی تو
ہو سکتی ہے؟"
"پھر اپنا مقصد اس چیز کو
بنانے سے پہلے سوچو کہ انت پر صرف بند دروازہ ہے یا کوئی کھڑکی جس سے ہوا بھی آتی
ہے۔" وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"پہلے سمت کا تعین کرو۔
پھر عقل کو استعمال کرو۔ اپنا راستہ تلاشو۔ پھر سوچو کہ تمہاری منزل تمہیں کہاں لے
جائے گی۔"
"مگر انسان کو پہلے معلوم
ھونا چاہیے کہ ہم کون ہیں۔" اس نے نیا نقظہ اٹھایا۔
"ہاں۔۔۔بالکل۔۔۔ معلوم ہونا چاہیے۔" بوڑھے فلاسفر نے اتفاق کیا۔"لیکن ”پہلے“ کی شرط ہٹا کر۔۔۔"وہ اس کی بات غور سے سن رہی تھی۔۔۔۔"اور رہا اس سوال کا جواب کہ”میں کون ھوں“ تو عقل اس کے متعلق متعدد اور متضاد جوابات دیتی ہے جو کسی بھی طرح آپ کو مطمئن نہیں کر سکتے۔"اس نے سانس لینے کا وقفہ لیا۔ "کیا تم جانتی ہو کہ خالق اور مخلوق میں فرق صرف "تخلیق" کرتی ہے۔ مخلوق "تخلیق" کے مراحل سے گزر کر وجود پاتی ہے۔ اور خالق کا وجود "ابد" بھی ہے اور "ازل" بھی۔ اس کا وجود عدم نہیں ہوتا۔" وہ مزید بول رہا تھا۔ "تخلیق "وجود" بھی رکھتی ہے اور "عدم" بھی ہوتی ہے۔ "میں" (being) بھی تخلیق ہے۔ زمین و آسمان بھی تخلیق ہیں۔ اور ان میں موجود فطرت کے قوانین (laws of mature) بھی تخلیق ہیں۔ یہ سب ایک وجود رکھتے ہیں۔ اور یہ سب ایک ان دیکھے وجود کے "وجود" کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ بس یہ عدم کی سمت کا تعین نہیں کرتے۔ "بوڑھا فلاسفر بولتے بولتے کھانسنے لگا تھا۔ اس کی آواز دھیمی پڑنے لگی تھی۔ وہ کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ اس کی تقلید میں کھڑی ہو گئی تھی۔ اس نے بغور اسے دیکھا۔ وہ قد کاٹھ کے لحاظ سے اس سے کئی گنا بڑا تھا۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے نیچے دئیے لنک پر کلک کریں
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ