Sheh Maat Novel By Fareeha Mirza Chapter 5
Sheh Maat Novel By Fareeha Mirza Chapter 5
"کتابیں پسند ہیں آپ
کو؟"کچھ یاد آنے پر اس نے اس سے پوچھا تھا۔
وہ بہت دھیرے قدم اٹھاتی
تھی۔ اس کی چال میں نزاکت اور تمکنت تھی۔ لوگ چلتے ہوئے مڑ مڑ کر اسے دیکھتے تھے۔
وہ سحرزدہ کر دینے کی حد تک دلکش تھی۔
اس کا پیروں کو چھوتا سفید
فراک ہوا سے بار بار پھڑپھڑانے لگتا تھا۔ لمبے سنہرے بالوں کی چٹیا بنا کر کندھے
پر آگے کو ڈال رکھی تھی۔ چہرے کے اطراف میں بالوں کی چند بکھری لٹوں سے منچلی ہوائیں
شرارت کر رہی تھیں۔
"ہاں۔۔۔" اس نے بالوں
کی ایک آوارہ لٹ کان کے پیچھے کرتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔
"ائیں، میں لے کر دیتا
ہوں۔ کون سا رائٹر پسند ہے آپ کو؟" وہ دونوں چلتے چلتے فٹ پاتھ کے ساتھ لگے ایک
سٹال کے قریب آ کر ٹھر گئے تھے۔ وہ اب اس سے اس کے پسندیدہ رائٹر اور کتابوں کے
بارے میں پوچھ رہا تھا اور کتابیں دیکھنے میں اس کی مدد کر رہا تھا۔ وہ دونوں ساتھ
ساتھ مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گفتگو بھی کر رہے تھے۔ اس پل ان دونوں کے بیچ میں
سب کچھ تھا مگر خاموشی نہیں تھی۔
وہ کافی دیر تک مختلف
کتابوں کے سرورق دیکھتی رہی اور صفحات پلٹتی رہی تھی۔ اس کی پسند کی ہوئی کتابیں
حدید نے اٹھا رکھی تھیں۔
سیلویا پلاتھ، دوستوفسکی،
فرانز کافکا، اوسامو دازائی، البرٹ کینز، جین پال سارتر سمیت اس نے بہت سارے کلاسک
رائٹرز کی کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھی تھیں پھر ورق گردانی کرنے کے بعد حدید کو تھماتی
گئی تھی۔
"وہاٹ آ لوڈ آف ڈپریشن۔"
جھرجھری لے کر حدید نے کتابوں پر تبصرہ کیا تھا۔
"پرفیکٹلی مائی ٹیسٹ۔"
وہ جوابا پلٹ کر سنجیدگی سے بولی تھی۔
"یہ آپ پر سوٹ نہیں کرتا۔
پازیٹو بکس پڑھا کریں۔" وہ نصیحت آمیز انداز میں بولا تھا۔
"مجھے پازیٹیو بکس نہیں
پسند۔" اس نے جین پال سارتر کی کتاب nausea کے صفحے پلٹتے ہوئے سنجیدگی
سے کہا۔ اس کی آواز اتنی بلند ضرور تھی کہ حدید کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے کھڑی ایک
درمیانی عمر کی عورت نے بھی سنی تھی۔
"یہ کتابیں بڑا اثر کرتی ہیں۔۔۔"
وہ عورت اپنے ہاتھ میں پکڑی کتابیں چھوڑ کر اس کے قریب چلی آئی تھی۔"۔۔۔سوچ
پر بھی اور عمل۔پر بھی۔"جملہ مکمل کر کے اسے سمجھانے والی نظروں سے دیکھا
تھا، پھر مزید بولی۔ "مثبت سوچ مثبت الفاظ کے ذریعے انسان کے اندر پیدا ہوتی
ہے۔ منفی چیزیں پڑھو گی تو مایوسی اور خود ترسی کا شکار ہونے لگو گی۔"
"یہ منفی چیزیں۔۔۔"
صوفیہ نے قدرے تلخی سے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کی طرف اشارہ کیا۔"کسی پر گزری
قیامت ہوتی ہیں۔ کسی کا حال ہوتی ہیں۔ کسی کا ماضی۔ ان میں بہت تلخی ہوتی ہے، بہت
مایوسی ہوتی ہے۔ مگر جو بھی لکھا ہوتا ہے حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقت ایسی ہی
ہوتی ہے۔۔۔تلخ۔۔۔منفی۔۔۔مایوس کن۔"اس کے اندر کی کڑواہٹ اس کے لہجے میں گھلتی
ہوئی صاف محسوس ہو رہی تھی۔
"ڈپریس کرنے والی بکس
پڑھنا کوئی اچھا کام بھی نہیں ہے۔" اس عورت نے اس کی بات کے جواب میں سنجیدگی
سے کہا۔
"کسی پر بیتا کرب پڑھنا
اور اس کے درد کو سمجھنا بری بات نہیں ہے۔ دنیا میں میری سوچوں کو ان کتابوں سے بیتر
کوئی نہیں سمجھتا۔ یہ کتابیں منفی ہی سہی مگر مجھے ان کو پڑھتے ہوئے تنہائی کا
احساس نہیں ہوتا۔ یہ الفاظ مجھے ممھے سمجھتے ہیں اور میں انہیں سمجھتی ہوں۔"
اس عورت نے اس کے جواب پر قدرے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔
"ہر منفی شے انسان کی زندگی
میں شر لاتی ہے۔" پلٹ کر حدید کو کتاب تھماتے ہوئے اس نے اس عورت کو کہتے
ہوئے سنا تھا جو شکل و صورت سے بےحد عام سی گھریلو عورت لگتی تھی مگر باتیں اس کی
بےحد گہری تھیں۔ کتابیں پڑھنے کا اثر!
"انسان کی زندگی میں سب سے
بڑی خیر اس کی مثبت سوچ ہوتی ہے اور سب سے بڑا شر اس کی منفی سوچ کے ذریعے اس کی
زندگی میں آتا ہے۔ اپنے اندر سے منفی سوچوں کا جال باہر نکال دو۔ یہ تمہارے اندر
کا شر ہوتا ہے۔ یہ تمہاری زندگی میں آنے والی ہر خیر کا دشمن ہوتا ہے۔ تم اس وقت
تک خوش نہیں رہ سکتیں جب تک ہر چیز کو مثبت نقطہ نظر سے نا دیکھو۔ تمہیں اپنے اندر
چھڑتی اس جنگ سے تب تک نجات حاصل نہیں ہو سکتی جب تک تمہارے اندر خیر کا پلڑا بھاری
نہیں ہوتا۔ اور یہ کام صرف تم خود کر سکتی ہو۔ اپنی مثبت سوچ کے ذریعے۔" وہ
عورت کہہ کر جا چکی تھی اور وہ کئی لمحوں تک اس کی بات پر غور کرتی رہی تھی۔ اسے
ہوش حدید کی پکار پر آیا تھا۔ "یو اوکے؟"
"ہاں۔۔۔" اس نے خود
کو کمپوز کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
"بہت اچھی باتیں کر کے گئی
ہیں وہ۔" حدید نے تبصرہ کیا پھر تائیدی انداز میں اسے دیکھا۔
"لیکچر دے گئی ہیں
محترمہ۔۔۔ہونہہ۔" اس نے ہنکار بھرا پھر اس عورت کی باتوں کو ذہن سے جھٹکتے
ہوئے کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔ اگلا پورا گھنٹہ وہ کتابیں دیکھتی رہی تھی
اور حدید اس کے ساتھ کھڑا اس کی پسند کی ہوئی کتابیں اٹھاتا رہا تھا۔
"بس؟" اسے تھکتے دیکھ
کر حدید نے پوچھا۔
"ہاں بس۔" اس نے ایک
تھکی ہوئی سانس خارج کی پھر حدید کے ہاتھوں میں موجود ڈھیروں کتابیں دیکھیں۔
"یہ تو بہت زیادہ ہیں۔"
"کتابیں جتنی ذیادہ خریدو،
اتنی ہی کم لگتی ہیں۔"حدید نے ہنس کر کہا تھا۔
"مگر کتابیں جتنی زیادہ خریدو،
اتنی ہی ذیادہ قیمت بھی ہوتی ہے۔" اس نے جوابا آنکھیں چھوٹی کر کے جتایا۔
"یہ بہت مہنگی ہوں گی۔"
"میں لے دوں گا۔" اس
نے اطمینان سے کہا۔
"یہ کتابیں دے دیں۔"
وہ اب سٹال والے ادھیڑ عمر آدمی کی طرف متوجہ تھا اور اس کے سامنے ہاتھ میں تھامی
ڈھیروں کتابیں رکھ رہا تھا۔
"چلیں۔" والٹ سے پیسے
نکال کر سٹال والے کو دینے کے بعد اس نے کتابوں کے تین بڑے بڑے شاپڑ اٹھاتے ہوئے
اس کی طرف پلٹ کر کہا تھا۔وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ وہ اس کے یوں دیکھنے پر
ہنسا تھا۔ پھر اس کے ساتھ چلتا ہوا سڑک کے اس پار کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے نیچے دئیے لنک پر کلک کریں
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ